تحریر ؛۔ خورشیدعلی
خاتون کی عمر اسی برس سے زائد ہوگی، اس کے انکھوں میں آنسو تھے اور وہ بار بار اپنے بیٹوں کی تصویر کو چومتی رہتی تھی، اس کے سامنے پوتا اور پوتی بیٹھے تھے، یہ عبداللہ خان کا بیٹااور بیٹی تھے جو کوئلہ کان میں گیس دھماکے میں جاں بحق ہوئے تھے، ان کے ساتھ چھوٹا بھائی بھی جان کی بازی ہار بیٹھا تھا، یہ جمعہ کا دن تھا، دونوں بیٹوں کی ماں کہہ رہی تھی آج عبداللہ کے آنے کا دن تھا مگر اس کے آنے سے پہلے عبداللہ کی بے جان جسم ہمارے پاس تابوت میں بند آئی،ماں ہچکیوں سے روتی ہوئی کہہ رہی تھی‘ یہی دو تو تھے جن کو میں نے پالا پوسا،جوان کیا ، ایک کی شادی کی ، یہ سوچ کر کہ اب ہماری زندگی بدل جائے گی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا، اب ہمارا کوئی نہیں سوائے اللہ کے۔ بوڑھی خاتون کے یہ دو بیٹے تھے، جبکہ اس کا شوہر بھی جوانی ہی میں کوئلہ کانوں کا ایندھن بن چکا تھا، بڑی مشکل سے ان دوبچوں کو بڑا کیا لیکن وہ بھی کوئلہ گیس دھماکے کے نذر ہوگئے ۔اب اس گھر والوں کیلئے روزی روٹی کمانے والا کوئی نہیں، بوڑھی خاتون ایک ہی صدا بولے جارہی تھی اب ہمارا کیا ہوگا ۔
بوڑھی خاتون کی یہ صدا صرف اس کی گھر سے نہیں آرہی تھی بلکہ یونین کونسل ڈھیری کے ہر گھر سے بلند ہورہی ہے، اس بوڑھی خاتون کے دوبیٹوں کی طرح گزشتہ ہفتہ ضلع شانگلہ کے یونین کونسل ڈھیری کے پندرہ نوجوانوں کی لاشیں پہنچادی گئی جو کوئٹہ میں کوئلے کے کان میں محنت مزدوری کرنے گئے تھے، کسی کو چھ ماہ ہوئے تھے تو کوئی ایک سال سے مزدوری کررہا تھا، گاؤں شلاؤو کے ستر سالہ بزرگ سرنزیب نے کہا کہ کان حادثہ میں ہلاک ہونے والے آٹھ افرادکا تعلق ایک ہی گاؤں شلاؤو سے ہے، جن کی عمریں 19 سال سے لیکر 28 سال کے درمیان ہیں، جبکہ باقی افرادکا تعلق گاؤں سپرگو، ورکوٹو بانڈہ، ڈنڈو، زڑہ، دولو‘ سے ہیں یہ نوجوان میٹرک اور ایف اے ، ایف ایس سی سے فارغ ہونے کے بعد مزدوری کیلئے ملک بھر کی مختلف کانوں کارخ کرتے ہیں، کیونکہ ضلع شانگلہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ پسماندہ علاقہ ہے، پہاڑی علاقہ ہونے کے ناطے یہاں پر نہ تو روزگار ہے اور نہ ہی دیگر سہولیات ، جس سے یہاں کے نوجوان استفادہ حاصل کرسکیں۔جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق ایسے دور افتادہ پہاڑی علاقوں سے ہیں، جہاں تک جانے کیلئے ڈھیری سے ایک سو سے لیکر دوسو روپے تک جیپ کا کرایہ ہے، اونچی ڈھلوانوں، پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا ہے، کمزور دل والے پہاڑوں کی بلندی کو دیکھ واپسی کی راہ لیتے ہیں،
انہی علاقوں میں جب مرنے والوں کی لاشیں پہنچیں تو رات کے سناٹے میں ہی ان کو دفن کردیا گیا کیونکہ وہ گیس دھماکے ، آگ اور جلن کی وجہ سے کوئلہ بن چکے تھے، ان کے جسم اور چہرے ان کے والدین نہیں پہچان رہے تھے، اسی وجہ سے جوں ہی وہ لاشیں ورثاء نے وصول کیں تو فورا ان کو دفنا دیا گیا، سرنزیب کہتے ہیں کہ اگر ان لاشوں کو کھول کر خاندان کو دکھایا جاتا تو شائد ہی کوئی اپنا پیارا کوئلہ کی مزدوری کیلئے بھیجتا ، جبکہ اس مزدوری کے علاوہ ان محنت کشوں کے سواء کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں ہے،کوئلہ کانوں میں چالیس سال سے محنت مزدوری کرنے والا سیف اللہ کہتا ہے کہ کوئلہ کانوں میں مزدوری کرنے والے سطح زمین سے تین سے لیکر چار ہزار فٹ تک گہرائی میں کام کرتے ہیں، چھ فٹ اونچا اور چھ فٹ چوڑے سرنگ میں مزدوروں کو نیچے لے جایا جاتا ہے،جہاں پر وہ کوئلہ کود کر ٹرالیوں میں بھرتے ہیں، ایک ٹن کوئلے کی مزدوری صرف پانچ سو روپے ہے، انہوں نے کہا کہ ایک مہینہ سخت مزدوری کرنے کے بعد صرف بیس سے پچیس ہزار روپے ماہانہ یہ مزدور کما لیتے ہیں جبکہ ان مزدوروں کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی لمحے کوئی دھماکہ ہوسکتا ہے
جس کے نتیجے میں ان کی جان جاسکتی ہے ، اس کے باوجود گھروالوں کی روزی روٹی کی خاطر وہ یہ مشکل راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ملک بھر کے کوئلہ کانوں میں مزدوری کرنے والے 80 فیصد محنت کشوں کا تعلق ضلع شانگلہ کے مختلف علاقوں سے ہے، محمد عمران بھی انہی محنت کشوں میں سے ہے جو پچھلے 18 سالوں سے کوئلہ کانوں میں مزدوری کرتا چلاآرہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہر سال درجن کے قریب مزدوران کانوں میں مرتے ہیں، جن کو کمپنی دو سے تین لاکھ روپے معاوضہ فی کس دیتی ہیں، جبکہ مختلف حادثات میں زخمی افراد کا تعلق سینکڑوں میں ہے جن کیلئے کوئی معاوضہ نہیں ہے، شانگلہ میں ہزارروں ایسے افراد ہیں جنہوں نے کوئلہ کانوں میں اپنے ہاتھ،پیر ، ریڑھ کی ہڈی تک توڑ دی ہے، لیکن صحت کی مد میں ان کیلئے کوئی مراعات نہیں ہیں،ان کو UBI کارڈ بھی نہیں ملتی جس سے وہ اپنا علاج کرسکیں، مفتی عبداللہ کا تعلق بھی شلاؤو گاؤں سے ہے اور ان کا بھائی مجزون خان بھی اسی سانحہ میں ہلاک ہوا، انہوں نے کہا کہ جو حادثہ پیش آیا ہے وہ کمپنی کے منیجر ، سپروائزر کے بڑی غلطی کی وجہ سے پیش آیا ہے کیونکہ گیس کا پتہ چلانے کیلئے ایک آلہ سرنگ میں نصب ہوتا ہے اس آلہ نے وارننگ دی تھی لیکن منیجر اور دیگر سٹاف نے مزدوروں کو کام جاری رکھنے کا کہا،
اس سانحہ کے ذمہ دار کمپنی کے لوگ ہیں، انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار سے مطالبہ کیا کہ وہ سانحہ کا سوموٹو ایکشن لے، اور تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی تشکیل دیں تاکہ مزید اس قسم کے سانحوں سے ملک اور محنت کش بچ سکیں۔سانحہ کوئٹہ کان کے انکوائری اور محنت کشوں کو بھر پور معاوضہ دینے کیلئے ایکشن کمیٹی بھی عمل میں لائی گئی ہے، اس ایکشن کمیٹی کے رکن متوکل خان ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ سانحہ میں ہلاک ہونے والے تمام بچے میرے اپنے بچے ہیں، بدقسمتی سے پنجاب میں جب بھی کسی حادثہ میں مزدوروں کی موت ہو جاتی ہے تو ان کو تیس لاکھ روپے ملتے ہیں جبکہ ہمارے صوبے میں صرف تین لاکھ اور وہ بھی اتنی مشکل سے کہ اللہ کی امان،، یہ ہمارے ساتھ سراسر ظلم اور زیادتی ہے،
مگر ہم مزید اس ظلم کو برداشت نہیں کرینگے،انہوں نے کہا کہ ملک بھر کی کوئلہ کانوں کو مزدوروں کی سپلائی ضلع شانگلہ سے ہوتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کہ ان مزدوروں کے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے کیلئے سکول مردان ، کوہاٹ، اورسوات میں قائم ہوتے ہیں اور ضلع شانگلہ کو قصداً محروم رکھا جاتا ہے جبکہ کوئلہ کانوں میں ان علاقوں کا کوئی بھی مزدور نہیں ہے، اسی طرح ہسپتال اور لیبر کالونی سے بھی شانگلہ کے مزدوروں کو محروم رکھا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ اب ہم ان محنت کشوں کی حقو ق کیلئے بھر پور آواز اٹھائیں گے۔ اس کیلئے ضلعی سطح پر ایکشن کمیٹی قائم کی گئی ہے۔ملک بھر کے کوئلہ کانوں میں مزدوری کرنے والے افراد سال بھر سخت محنت مزدوری کرنے کے بعد تین سے چار ماہ اپنے گاؤں کا رخ کرتے ہیں،
جہاں پر وہ چند لمحے سکون میں گزارنے کے بعد واپس موت کے کنویں میں اتر جاتے ہیں، تاکہ اپنے بچے کیلئے دو وقت کی روٹی کما سکیں، ٹانگ سے محروم سرزمین کہتا ہے کہ جن جگہوں سے کوئلہ نکلتا ہے وہاں نہ تو کوئی ہسپتال ہے نہ ایمبولینس اور نہ ہی سانحہ کی صورت میں ریسکیو کا کوئی انتظام ہوتا ہے، گزشتہ ہفتے جن پندرہ افراد کی لاشیں لائی گئی تھی ، ان میں دوایسے لوگ بھی شامل تھے، جو سانحہ کے بعد ریسکیو کا کام کررہے تھے تاکہ اپنے ساتھیوں کو بچاسکیں، ان ہی امدادی کاموں کے دوران انہوں نے بھی اپنی جان گنوادیں، انہوں نے کہا کہ میں خود بھی ایک کوئلہ کان میں مزدوری کے دوران حادثہ کی وجہ سے ایک ٹانگ سے محروم ہوا ، اگر بروقت میرا علاج بہتر انداز میں ہوتا تو آج میں اپنی ٹانگ سے محروم نہ ہوتا دوسروں سے نہ مانگتا بلکہ دوسروں کی مدد کرتا، انہوں نے کہا کہ ضلع شانگلہ میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کے یا تو ہاتھ کٹے ہیں، یا جسم جل چکے ہیں اب وہ کسی کام کاج کے نہیں ، بلکہ دوسروں سے مانگتے پھرتے ہیں، اور یہ ان کی مجبوری ہے،انہوں نے کہا کہ کوئلہ کانوں میں جتنے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں یہ کمپنی کی غفلت اور لاپراہی کی وجہ سے ہوتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنا کام ٹھیک طرح سے کریں اور معمولی فائدے کیلئے مزدوروں کی جان سے نہ کھیلیں تو یہ حادثات اسی فیصد تک کم ہوسکتے ہیں، لیکن اپنے مالی فائدے کیلئے اکثر اوقات کمپنی کے اعلیٰ افیسران اس قسم کے حادثات کو رونما ہونے دیتے ہیں۔کوئلہ کانوں میں دو بیٹوں اور ایک شوہر سے محروم ہونے والی بزرگ بیوہ خاتون کی طرح ہزاروں بیوائیں اور یتیم بچے ہیں، جو وقت کی روٹی کیلئے ترستے ہیں اگر پڑوسیوں نے ان کیلئے اپنے کھانے میں سے کچھ دیا تو وہ کھالیں گے بصورت دیگر وہ بھوکے اور پتوں کو کھا کر اپنا گزاراکر لیں گے،
ستر سالہ بزرگ شہری سرنزیب نے کہا کہ ضلع شانگلہ میں ایک اندازے کے مطابق دس ہزار کے قریب بیوہ خواتین اور پندرہ ہزار کے قریب یتیم بچے ہونگے، جو تعلیم ،صحت اور کھانے کیلئے دوسروں کے محتاج ہیں، اگر حکومتی یا غیر سرکاری سطح پر سروے کیا جائے تو یہ تعداد زیادہ ہوگی ، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کوئلہ کانوں میں مزدوری کرنے والوں کیلئے قانون سازی کرے تاکہ ان کو جائز حق مل سکے، انہوں نے حکومت پاکستان سے بھی مطالبہ کیا کہ مائنز کمپنیوں مالکان کو بین الاقوامی قوانین لاگو کرنے پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ کسی بھی حادثے کی صورت میں لواحقین کی بھرپور مالی معاونت کرسکیں جبکہ حکومت ان کمپنیوں کو مجبور کرے کہ وہ شانگلہ میں اسکول،یتیم خانہ ، ہسپتال ، لیبر کالونی، سڑکوں کی تعمیر ، UBI کارڈ کا اجراء فوری طور پر شروع کرے، اس اقدام سے شائد عبداللہ کی بوڑھی ماں کے آنسو تھم سکیں؟۔
3,042 total views, 6 views today