تحریر ۔عبداللہ مدنی
فاٹا کے خیبرپختون خواہ میں انضمام کے بعد جہاں ایک طر ف ملک کے بیشتر حلقوں کی جانب سے اس فیصلہ کا خیر مقد م کیا جا رہا ہے ،قبائل بشمول پختون خواہ کے اکثراضلا ع میں انضمام کے فیصلے کونیک شگون اور قبایلی علاقے کے قومی د ھارے میں شامل ہو نے کو خوش آیند قرار دیا جارہا ہے ،ملک کے دوسرے حصوں کی طر ح ملاکنڈڈویژن کے تمام اضلاع میں 31ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور صدر مملکت کی جانب سے اس پر دستخط کے بعد آتش بازی ،جلوسوں اور مشعل بردار ریلیوں کے ذ ر یعے اس فیصلے کوو یلکم کیا گیا اوراس کو پختون قوم کی وحد ت ،ترقی و خوشحالی کا مظہر قراردیا جارہا ہے ۔
31ویں آئینی ترمیم حوالے سے ابھی بحث و مبا حثے جاری تھے کہ فاٹا انضمام کے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 247کے تحت ملاکنڈڈویژن کی خصوصی حیثیت خاتمے نے لوگوں میں تشویش کی لہردوڑادی ہے جس کے فاٹا انضمام حوالے سے خوشی مانند پڑنے لگی ہے ،تقریبا تمام سیاسی جماعتوں ،علاقائی مشران ،قبایلی عمایدین نے آئین کے آرٹیکل247کے خاتمے کے بعد پا ٹا کی خصوصی حیثیت خاتمہ حوالے سے اپنی تشویش کااظہار جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے خاتمہ کا خیرمقدم بھی کیا جارہا ہے ،
سوات ،اپر دیر،ملاکنڈ،اپردیراورلویر دیر میں اس حوالے سے رائے عامہ کو منظم کرنے کے لئے مقامی مشران متحرک ہو گئے ہے او رشنید ہے کہ ر مضان کے فوری بعد اس حوالے سے کو ئی کو ئی منظم تحریک شرو ع کی جا ئیگی ۔تالاش دوشخیل قومی اصلا حی جر گہ کا ایک ہنگامی اجلاس زیرصدارت محمد اسرار منعقد ہوا جس میں جرگہ ممبران نے واضح کیا کہ وہ کسی بھی صور ت ملاکنڈڈویژن کے خصوصی حیثیت خاتمے حوالے سے سمجھوتہ نہیں کر ینگے ،جرگہ ممبران نے کہا کہ ڈویژن بھر کے لاکھوں افراد نے ملک کی خاطر قربانیاں دی 30,لاکھ افراد عسکریت پسندوں کے خلا ف آپریشن کے دوران بے گھر ہو ئے،یہی خطہ سیلاب ،زلزلوں اور دہشت گردی سے براہ راست متاثر ہ جبکہ مختلف مالیا تی اسیکنڈلز اور عرب ممالک میں معاشی بدحالی سے یہاں بے روز گاری میں خطرناک حد تک اضا فہ ہو گیا ہے ،ان تمام تر حالات میں ڈویژن کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور یہاں مختلف مدوں میں ٹیکسوں کے نفاذ کے لئے مقامی باسی کسی صورت تیار نہیں ،مقامی مشران آئین کے ارٹیکل247کے خاتمہ کو ملاکنڈ میں ٹیکسوں کے نفاذ سے تعبیرکررہے ہیں تاہم ایک وسیع حلقہ مذکورہ ارٹیکل کے تحت خصوصی حیثیت کو غلامانہ ذہینت کی عکاس قرار دے رہا ہیں
اس حوالے سے سماجی راہنماوں اکبرخان اور ابراش پاشاکا کہنا تھا کہ فاٹا اور فاٹا حوالے سے آئین کا مذکورہ ارٹیکل 247
وفاق اور صوبے کے زیر انتظام قبایلی علاقہ جات میں صو بائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کے براہ راست نفاذ سب سے بڑی روکاوٹ تھا ،صدر پاکستان اور گور نر کی منظوری کے بغیر یہاں کو ئی قانون نافذالعمل نہیں ہوسکتاجیسے کہ صوبائی اسمبلی کی جانب سے پاس کر دہ معلومات تک رسائی کا قانون عرصہ گزرنے کے باو جود ملاکنڈڈویژن (فاٹااور پاٹا)میں نافذ نہیں ،جو کہ یہاں کے رہایشیوں کے سا تھ دوسری در جہ کے شہری کاسلوک تھا ۔
مذکورہ ارٹیکل کے خاتمے کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ دس پندہ برسوں کے دوران صوبائی وزرائے خزانہ کا تعلق ملاکنڈڈویژن سے رہا ہے ،پورے صوبے کے لئے بجٹ تیار کرنے والے اورترقیا تی منصوبوں میں حصہ مانگنے والے خود کیوں ٹیکس دینے سے انکاری ہے ،ان حامیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں ملاکنڈڈویژن کے آنے کے بعد یہاں ترقی کا دور شروع ہوگا اور شہریوں کا احساس محرومی ختم ہو گا ۔
ٹیکسز کے نفاذ حوالے سے یہاں مختلف آراء موجود ہے ،ماہرین کے مطابق وفاقی اور صو بائی حکومتیں یہاں بلاوسطہ عوام سے تنخواہوں ،ٹیلی فون ،موبائل کارڈ ،اشیاے خورو نوش میں ٹیکسز وصو ل کررہیں اور اس حوالے سے اب تک کو ئی رعایت سرے سے حاصل ہی نہیں تھی صر ف براہ راست ٹیکسوں کے نفاذ سے سرمایہ داروں اور بڑے بڑ ے مگرمچھوں کو قومی دھارے میں لایا جا سکے گا۔
ملاکنڈڈویژن کو پاٹا کی حیثیت سے جو خاص حیثیت حاصل تھے اس کے تحت ان تمام ا ضلاع کو ٹیکس فری زون کادرجہ حاصل تھا ،پراپرٹی ،سیلز ،جنرل ٹیکسز کا اطلاق براہ ان علاقوں میں نہیں تھا ،اس وقت بہت بڑی تعداد میں نان کسٹم پیڈ ( این سی پی) گاڑیاں ملاکنڈڈویژن میں مو جود ہے جن سے لاکھوں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے ،ٹیکس چھوٹ کی خصوصی رعایت کے سبب ان گاڑیوں کی خریدو فروخت منافع بخش کاروبار کی کی حیثیت اختیار کرچکا ہے ،بعض علاقوں کو براہ راست افغانستان کے راستے جبکہ بعض براہ راست قومی شاہراہ کے ذریعے روزانہ درجنوں کی بنیاد پر گاڑیاں اسمگل کر کے ملاکنڈڈویژن لا ئے جاتے ہے ،ان گاڑیوں کی سرکاری سطح پر عارضی رجسٹریشن کا مرحلہ تقرینا مکمل ہو چکا ہے تا ہم ٹیکس نظام کے نفاذ کے بعد ان لاکھوں این سی پی گاڑیوں کا مستقبل بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے ،ماضی میں وفاقی حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کے ذر یعے ہزاروں این سی پی گاڑیوں کو رجسٹر ڈ کرکے ٹیکس نیٹ میں لایا گیا تھا تاہم ٹیکس حوالے سے پانچ سالہ رعایت کے دوران حکومت ایک بار پھر ان گاڑیوں کو ایمنسٹی اسکیم کے ذر یعے رجسٹر ڈ کرکے ٹیکس کے دایرے میں لا ئیگی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔ماہرین کے مطابق ا ن گاڑیوں کو رجسٹر ڈ کرکے حکومت ٹیکس کے مدمیں کروڑوں روپے سالانہ کما سکتی ہے ،اور یہی اس کا مناسب حل ہے
عام آدمی کے ذہن میں فاٹا انضمام فواید حوالے بات تو سمجھ میں آتی ہے مگرآئینی امور کے ماہرین کے مطابق ارٹیکل247اصل میں 246کی تشریح ہے جس میں فاٹا( وفاق کے زیر انتظام علاقے ) اور پا ٹا ( صو بے کے زیر انتظام علاقہ جات ) کے حوالے تشریح کی گئی ،پا ٹا میں ملاکنڈ ڈویژن ،چاغی،ہزارہ کے کچھ علاقہ، ژوب،کوہستان،بگٹی وغیرہ کے علاقے اور اضلاع شامل ہے،ماہر ین کے بقول مذکوزہ دونوں آرٹیکلزکے خاتمے کے بعد صدر مملکت کی جانب سے گورنر کی وساطت سے لاگوتمام خصوصی قوانین ختم جبکہ وہ تمام قوانین براہ راست لاگوہونگے جو ملک کے باقی حصوں میں رائج ہے ۔
پاٹا کے خاتمے کے بعد ملاکنڈڈویژن میں چند برس قبل نافذ ہونیوالے شر عی نظام عدل ریگولیشن حوالے سے بھی کئی ایک سوالات پید ا ہو گئے ہے ، اے این پی دورحکومت میں مذکورہ ریگو لیشن کا اجرا ء ڈویژن کے مخصوص حالات ،عسکریت پسندی کے لہر کے خا تمے اور مقامی لوگوں کے مطالبہ پر کیا گیا تھا ،پرانے قوانین کے خاتمے کے سا تھ خود بخود وہ تمام ملکی قوانین یہاں پررائج ہو نگے جو مذکورہ ایکٹ کی و جہ سے یہاں نافذ نہیں تھے اور شرعی نظام عدل ریگولیشن کا بھی مذکورہ نئے 31ویں آئینی ترمیم کے ساتھ ہی خاتمہ سمجھا جا ئے ۔نئے آئینی ترمیم کے سا تھ ہی ماضی میں صوبائی اسمبلی کے پاس کر دہ قوانین جیسے کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ خود بخود ملاکنڈڈویژن میں نافذ العمل ہو گیا ہے ،اسی طرح 1962میں صدر ایو ب خان کی جانب سے قانون وراثت کے تحت دادا کے ذندگی میں پوتا وراثت کا حقدار ٹہرتا تاہم یہ قانون ملاکنڈ ڈویژن میں نافذ العمل نہیں تھا ،پاٹا کی حیثیت ختم ہونے کے بعد والد کے وفات پر اب پوتا براہ راست دادا کے وراثت میں حصہ کا حق دار ہوگا ،ملاکنڈ ڈویژ ن کی مخصوص جغرافیائی صور ت حال کے پیش نظر صد مملکت نے ایکشن ان ایڈ آف سول پاور کے نام سے 27 جون 2011کو ارڈیننس جاری کیا جس کے ذریعے قانون نافذ کر نے والے اداروں کو یہاں مختلف قسم کے تربیتی مراکز کے قیام کی اجازت دی گئی تاہم مذکورہ ارڈینس آئینی ماہرین کے مطابق مزید 32قوانین کے نفاذ میں براہ راست روکاوٹ تھا ۔
فاٹاکی قومی دھارے میں انضمام اگر چہ ایک بروقت فیصلہ ہے تاہم اس کی آڑ میں پاٹا( صوبے کے زیر انتظام علاقوں )کی حیثیت حوالے سے کئی ایک سوالات تاحال موجو د ہے،یہاں کے سیاسی جماعتیں مذکورہ ایکٹ کے خاتمے کو آیندہ عام انتخابات میں سیاسی کارڈ کے طور پر استعما ل کرکے عوام کی ہمددریاں سمیٹنے کی کوشش کررہی ہیں،ضرورت اس امرکی ہے کہ صوبے کے زیر انتظام علاقوں میں صدر اور گورنر کے
خصوصی اختیارات خاتمے کے نتیجے میں عوام میں پائی جانے والے غلط فہیموں کا بروقت ازالہ کیا جا ئے تاکہ کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے .
2,568 total views, 2 views today