تحریر: توصیف احمد خان
عید کے دنوں میں پاکستان کے بیشتر علاقوں خصوصا پنجاب سے بڑی تعداد میں سیاح سوات کی طرف رخ کرتے ہیں۔سوات کے سرسبز وادیوں،لہلہاتی پھولوں،روح کو تسکین پہنچانے والی نظاروں اور آب حیات جیسا صاف و شفاف دریا اور یہاں کے حسیں و جمیل اور مسرور کن نظاروں سے لطف اٹھانے کے لیے یہ علاقہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ان سیاحوں میں ٨٨ فیصد سے زائد لوگ تعلیمی یافتہ ہوتے ہیں،جن میں بڑی تعداد یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علموں کا ہی ہوتا ہے۔بہار کے موسم میں یہاں کے حسن و شادابی اپنے عروج پر ہوتی ہے جن کو دیکھنے کے لیے ہر شخص کی آنکھیں ترس رہی ہوتی ہے۔یہاں آنے کے لیے ہر وقت بے تاب ہوتیں ہے۔اور یہاں انے پر فخر محسوس کرتے ہیں
اتنی بڑی تعداد میں سیاحوں کا آنا یہاں کی آمن و آمان کی عکاسی کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ہمارا اور ان کے درمیان ایک ہمآہنگی پیدا ہوتا ہے جو قومی استحکام کے لیے ایک لازمی امر ہے۔
سیاحوں کا آنا یہاں کے باسیوں کے لیے کسی مال غنیمت سے کم نہیں کیونکہ اس سے ہمارے Tourism Industry کو فروغ مل کر ہمارے معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے کا ایک ذریعہ بنتا ہے۔
جو لوگ سیر و تفریح کے لیے سوات کا رخ کرتیں ہیں سب سے پہلے مجھے اپنے سوات کے باسیوں سے گزارش ہے کہ ان سے حد درجہ نرمی برتیں۔ان کو اجنبی یا مہمانوں جیسا نہیں بلکہ بھائیوں جیسا ٹریٹ کریں۔اس میں نہ صرف ان کا بلکہ ہمارا بھی فائدہ ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں یہاں کے باسیوں سے تہہ دل سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ ایک وقت ایسا تھا کہ سوات کو
The switzerland of the east
کہا جاتا تھا۔کیونکہ یہاں کے سرسبز و شاداب جنگلات پیڑ پودے رنگارنگ پھول اور آب زم زم کی طرح صاف و شفاف پانی رکھنے والا دریاٸ سوات میں ایک روحانی سرور ہوا کرتا تھا۔یہاں صفائی و ستھراٸ تھیں۔گندگی اور غلاظت کا نام و نشاں ہی نہ تھا۔اگر ہوتا بھی تو کم از کم اس کو اٹھانے کا احساس ضرور ہوتا۔
جب باہر سے لوگ یہاں اتیں ہے تو محض خشک أور جنگلات سے خالی اور ہر قسم کے غلاظت سے بھرے ہوئی ڈھیر کو دیکھنے کے لیے نہیں بلکہ وہ جو ان کے طبیعت کو خوشگوار گزرے، ان کو مطمین کریں کہ سوات جیسا خوبصورت جگہ کہیں نہیں۔
عام دنوں عموما اور عید کے دنوں میں خصوصا سوات کے باسیوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایک Responsible شہری بن کر نہ صرف خود گندگی پھیلانے سے باز رہيں بلکہ یہاں انے والے مہمانوں کو پیار و محبت سے آگاہ کیا جائيں کہ یہاں کچرا جس میں پلاسٹک شاپنگ بیک سرفہرست ہے کو نہ پھینکیں۔
ایک ایسا اگاہی مہم ہونا چاہیے کہ کوٸ بھی شخص ہمارے علاقے کا رونق اور خوبصورتی و رعناٸ کو ضائع کرنے کا موجب نہ بنیں۔
یہ زمہ داری ہم سب کو اپنانا ہوگا کیونکہ اس سے یہاں آنے والے سیاحوں کے دلوں میں ہمارا وقار اور رتبہ اور بھی بڑھے گا اور یہ اس بات کا عملا ثبوت ہوگا کہ ہم کتنے پڑھے لکھے ہیں۔ہم کو کتنا اپنے علاقے اور وطن سے پیار ہے۔کتنا باشعور اور محتاط شہری ہے۔
ایسا نہ ہو جس طرح عموما ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں سے ذیادہ ہم سوات کے حسن کا قاتل بنتے رہے۔ہم خود بھی کوڑا کرکٹ پھینکے اور دوسروں کو بھی ایسا کرتے دیکھے اور یوں ایک سوات کھچرے اور غلاظت کا ڈھیر بنتا رہے۔
مجھے امید ہے کہ ہم نہ صرف خود اس سے اجتناب کرینگے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا نہ کرنے کی تلقین کرینگے۔
2,064 total views, 4 views today