مارے سرکاری ونجی تعلیمی اداروں میںمعیاری تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی میں نت نئے تجربات ہورہے ہیں کہ کیسے ترقیافتہ ممالک کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے اہداف حاصل حاصل کئے جاسکے، مگر پھر بھی مثال وہی مرغی کی ایک ٹانگ جو کبھی سیدھی نہیں ہوسکتی۔حکومت کی جانب سے تعلیمی اصلاحات کے بلند و بانگ دعوے روز اخبارات کی زینب بنتے ہیں، مگر حالات جوں کے توں ہیں۔تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور میں تعلیمی ترجیحات تو ضرور شامل ہوتے ہیں مگر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد تعلیم محض منشور کی خانہ پری ثابت ہوتی ہے۔ دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے اپنی کارکردگی صرف تزئین و آرائش کی بنیاد پر پیش کرتے ہیں۔ نجی تعلیمی ادارے ایک دوسرے پر فوقیت تعلیمی معیار کے بجائے نمائشی دوڑ میں لگے ہیں ۔ اور اس نمائش کے لئے سارا بوجھ طلباءپر ڈال کر فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا جاتا ہے۔
اب تو طلبا کو لوٹنے کے نئے طریقے وضح کئے جاچکے ہیں۔ کتابیں، وردی، سٹشنریز سے لے کر بسکٹ تک کے اپنے کاروبار بھی ساتھ کھول دئے ہیں اور طلباءکو اس بات کا پابند بنایاجاتا ہے کہ سب کچھ انہی سے خریدیں چاہیں قیمتیں آسمان سے باتیں کیوں نہ کرتی ہو۔ حتی کے حجام بھی اپنے رکھے ہوئے ہیں۔ ہم تعلیمی دوڑ میں کس حد تک آگے جارہے ہیں یا کس طرح پیچھے دھکیل دئے جارہے ہیں۔ یہ الگ موضوع ہے لیکن میں صرف علم کی افادیت اور رسمی و غیر رسمی تعلیم پرطبع آزمائی کی ایک ناکام سی کوشش کررہا ہوں۔
علم کیا ہے، کیونکر ہے اور کا مرتبہ کہاں تک محیط ہے اس کی افادیت و آفاقیت کیا ہے؟
قارئین کرام! حضرت آدم کا جسم مبارک جب مٹی سے تیار کیا گیا تو ملک برحق نے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جو دراصل علم کو سجدہ تھا۔ بن آدم اشراف المخلوقات کہلائے ۔ یہ علم کا شرف تھا۔ اور یہی علم ایک جانکاری تھی جو اپنے خالق ، اپنے مالک اور ذوالجلال کی پہچان کرے اور انسانیت کو عبادیت میں لائے۔ اور اسی علم کے سہارے اپنا مقصد ، اپنا مشن ، اس پر چلنے کا طریقہ اور اختتام تک پہنچانے کا راز جان کر سرخرو ہو۔
مگر ستم ظریفی دیکھئے کہ اس مبارک علم کو ہم بنی نوع انسان نے کمائی کا بہترین ذریعہ بناکر فطرت کے اصولوں کو پائمال کررہے ہیں۔ہم نے انسان کی اس بنیادی ضرورت کو اپنے اور دیگر انسانوں کی تذلیل و رسوائی کا سبب بنا ڈالا ہے۔ گلی گلی قریہ قریہ تعلیمی کاروبار کھول کر ڈگریاں بیچی جارہی ہے۔ اور ہمارے ہاں تعلیم کو نہیں صرف ڈگری کی اہمیت کو دیکھا جاتا ہے۔ قابلیت اور ذہانت کیا ہے ، اس سے ان تعلیم فروشوں کو کوئی سروکار نہیں۔ ایگزیٹ سکینڈل کی طرح مملکت خدادا میں درجنوں ایسے ادارے ہیں جو آن لائن پیسے وصول کرکے اعلی تعلیم کی ڈگریاں فروخت کررہے ہیں، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ڈگری تو صرف پیسوں کی رسیدیں ہیں، اور اب خود اندازہ لگائیں کہ گھر بیٹھے پیسے دے کر خریدی ہوئی یہ ڈگریاں رسیدوں کے علاوہ کیا ہوسکتی ہیں؟
قارئین کرام! یہ سوال بھی اہم ہے کہ اتنا سمجھ بوجھ رکھنے کے باوجود اتنے خریدار کہاں سے آتے ہیں جو اس گھناﺅنے کاروبار کو فروغ دے رہے ہیں؟
ظاہری بات ہے کہ ہماری حکومت ہی اس جرم میں برابر کے شریک ہے۔ آئین میں تو ہم نے معیاری بنیادی تعلیم ہر شہری کے لئے مفت اور حکومتی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ مگر زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات نہ ہونے کے باعث ملک کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ادھر تعلیمی ایمرجنسی کی باتیں ہورہی ہے اور ادھر سرکاری سکول عمارتوں کے بغیر چل رہے ہیں۔ صرف سوات میں درجنوں ایسے سکول موجود ہیں جو عمارتوں کے نہ ہونے کے باعث دکانوں، پرائے گھروں اور مسجدوں میں چل رہے ہیں، کئی ایسے بھی ہیں جہاں کھلے آسمان تلے بورڈ لگاکر پڑھائے جاتے ہیں۔ بارش، آندھی اور تیز دھوپ میں ان سکولوں کے بورڈ کو سمیٹ سکولوں کو بند کیاجاتا ہے۔ اپنے علاقے کی روداد سناﺅں تو کالام کی خوبصورت وادی مٹلتان میں تین سال قبل زلزلے سے تباہ شدہ سکول کے بچے اب بھی ٹینٹوں میں پڑھنے پر مجبور ہیں۔ مٹلتان کے ہائی سکول میں پرنسپل سمیت دس اسامیاں خالی پڑی ہے۔ ادھر لائیکوٹ میں بھی تین سال قبل پرائمری سکول کی عمارت زلزلے میں تباہ ہونے کی وجہ سے بچے مقامی مسجد میں پڑھ رہے ہیں۔ گورکین اور کس کالام میں برفانی تودے گرنے سے تباہ شدہ سکولوں کو چھ سالوں میں تعمیر نہیں کیا جاسکا۔
اس خستہ حال تعلیمی صورت حال کے خلاف مقامی لوگوں نے کئی احتجاجی مظاہرے کئے۔ حتی کہ کالام سمر فسٹول کے دوران جب وزیر اعلی پرویز خٹک صاحب تشریف فرماچکے تھے تو مقامی نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا ، مگر تبدیلی سرکار نے کانوں میں روئی ٹھونس دی ہے، مجال ہے کسی کی ایک آہ سنے۔
اب دوبارہ الیکشن قریب ہے۔ تمام سیاسی پارٹیاں پھر سے تعلیمی انقلاب کا راگ الاپ کر ووٹ کی بھیک مانگیں گے۔
میں ان تمام سیاسی مداریوں کو غالب کا ایک شعر تحفہ کرتا ہوں کہ
کعبہ کس منہ سے جاﺅں گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
1,586 total views, 4 views today