وطن کی کہانی بس اتنی ہے ساری
یہی ایک حالت ہے برسوں سے طاری
من حیث القوم ہم ترقی کے منازل طے کرنے کے لئے جہاں وسائل کے اعتدالانہ استعمال کا راگ الاپتے رہتے ہیں، وہی ہم ان وسائل کو بے رحمی سے ضائع کرتے ہوئے ذرا سی بھی جھرجھری محسوس نہیں کرتے۔وسائل کو نقصان پہنچا کر ہم مخلوق خدا کو نقصان پہنچارہے ہیںاور یہ بھی بھول گئے ہیں کہ کسی بھی طے شدہ نظام کی ایک کڑی کو بھی چھیڑا جائے تو پورا نظام تباہ و بردباد ہوجاتا ہے۔
آمدم برسر مطلب کہ پاکستان میں 1947میں جنگلات کی شرح چھبیس فیصد تھی، مگر جس بے دردی سے جنگلات کو تباہ کیا گیا اور یہ محسوس تک نہیں کیا کہ یہ بھی ایک نظام کی کڑی ہے، جس کے ٹوٹنے سے دوسرے نظام بھی ٹوٹ جارتے ہیں۔ جنگلات کا بے رحمانہ ضیاع کا عالم یہ ہے کہ اب پاکستان میں جنگلات کی شرح صرف تین فیصد رہ چکی ہے۔اور اس پر طرہ یہ کہ جنگلات کی کٹائی بدستور جاری ہے اور شجرکاری نہ ہونے کے برابرہ ہے۔ اگر ہم اسی طرح جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرتے جائیں تو مزید چالیس سالوں کے اندر پاکستان سے جنگلات کا ہی خاتمہ ہوگا۔ اگر اب بھی ہم ہوش کے ناخن لے کرہر سال ڈھائی کروڑ درختوں کی شجرکاری کریں تو چالیس سال کے بعد پھر سے چھبیس فیصد تک پہنچ جانے کی امید ہے۔
شہری علاقوں میں جنگلات ناپید ہوتی جارہی ہے۔ مگر اب بھی خیبر پختونخوا کے بالائی علاقوں سوات، مالم جبہ ، کالام اور دیر کوہستان میں اب بھی کافی حد تک وسیع جنگلات پائے جاتے ہیں۔ مگر جس تعداد سے ان علاقوں میں قیمتی دیار کے جنگلات پائے جاتے ہیں۔ اسی تناسب سے ان جنگلات کی بے دریغ کٹائی بھی جاری ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان قیمتی دیار کے جنگلات کو کیوں کاٹ کر ختم کیا جارہا ہے؟
تو عرض گزارش یہی ہے کہ جب آپ کے پاس کھانا پکانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لئے لکڑی کے بغیر کوئی اور متبادل ایندھن نہ ہوتو ان یخ بستہ علاقوں میں جنگلات کی کٹائی کے بغیر زندگی بسرکرنا مشکل ہوجاتاہے۔ ان علاقوں میں موسم سرما میں درجہ حرارت منفی بیس تک گرجاتا ہے اور ان علاقوں میں گیس کی سہولت نہیں اور نہ ہی مستقل بجلی کی فراہمی کا کوئی نظام موجود ہے۔ تو ظاہر ہے یہاں کے لوگ کھانا پکانے اور گھروں کو گرم رکھنے کے لئے بڑی انگھیٹیوں کا استعمال کرتے ہیں اور اس میں دھڑا دھڑ لکڑیاں جلا کر اپنے جسم کو حرارت دیتے ہیں۔ دوسرا بڑا وجہ ٹمبر مارکیٹنگ ہے۔ دیار کی لکڑی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ٹمبر مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمت کو دیکھ کر ٹمبر مافیاز کے وارے نیارے ہوگئے ہیں۔ وہ غیر قانونی طور پر دیار کے درختوں کو کاٹ کر ٹمبر مارکیٹ میں پہنچادیتے ہیں۔ اور یہ ان چیک پوسٹوں پر سے گزر کر کیسے مارکیٹ پہنچ جاتا ہے۔ اس حوالے سے مقامی لوگوں کا تاثر یہی ہے کہ ان کے ساتھ محکمہ فارسٹ اور پولیس کے اندر کالی بھیڑیں بھی شامل ہیں۔ جو اس مارکیٹنگ کا حصہ بن چکے ہیں۔
قارئین کرام! ان علاقوں میں موجود درختوں کی کٹائی کے خلاف ماضی میں بہت سی آوازیں بلند ہوئے، مگر یا تو شدید مایوسی کی وجہ سے یہ آوازیں معدوم ہوگئے یا انہیں دبا کر خاموش کردیا گیا۔
اور صورت حال اب بھی یہی ہے کہ پہاڑوں کے دامن میں گرنے والے درختوں کے لاشوں کا ماتم توجاری ہے، مگر مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ سڑکوں کا جال بچھاتے ہوئے اورمواصلاتی نظام کو بہتر کرتے ہوئے بھی ہزاروں تناور درختوں کے لاشوں سے بھی گزرنا پڑا رہا ہے۔ موٹر ویز اور ایکسپریس ویز کی اہمیت سے کسی قسم کا انحراف ممکن نہیں ، لیکن روٹ نقشہ بناتے ہوئے درختوں کی اہمیت دو کوڑی کی ہوتی ہے۔ سڑکوں کے روٹس گنجان جنگلات میں سے گزارتے ہوئے جنگلات کا مکمل صفایا کرتے ہیں۔
قارئین کرام! اگر صورت حال اسی طرح رہی تو بعید نہیں کہ ہمیں دھوپ میں سایہ تلاش کرنے کے لئے بھی درخت میسر نہیں ہوں گے۔ اور یہ صورت حال سب کے سامنے ہے ہمارے مشران کے مطابق وادی کالام کا میدانی جنگل جو کہ ایشیاءمیں سب سے وسیع میدانی جنگل ہے، اس میں سے گزرتے ہوئے بندہ گھنے جنگلات میں راستہ بھول جاتا تھا۔ اب یہاں پر مختلف کھیلوں کے گراﺅنڈ بن چکے ہیں۔
لہذا ہاتھ جوڑ کر ارباب اختیار و اقتدار سے اپیل کرتے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں اور ان جنگلات کے تحفظ کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی وضع کیا جائے تاکہ اس بڑی تباہی سے بچ سکیں۔
1,984 total views, 2 views today