تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد ؐ
ثانی تو بڑی چیز ہے۔ سایہ نہ ملے گا۔ ۔
7 ستمبر 1974کا یادگار دن
جب اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا.
مولانا شاہ احمد نورانی رحمة اللہ نے فتنہ قادیانی کے خلاف قومی اسمبلی میں قرار داد پیش کی.
مولانا مفتی محمود رحمة اللہ نے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر پر جرح کی۔
عوامی سطح پر تحریک کی قیادت مولانا یوسف بنوری رحمة اللہ نے کی.
اس طرح یہ 94 سالہ پرانا مسئلہ ملی وحدت کے ذریعے حل ہؤا.
اس تحریک میں ہزاروں لوگوں کا خون اور مجلس احرار اسلام اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی شبانہ روز محنت شامل تھی.
یہ مسئلہ حل کرنے پر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو بھی خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.
یہ سچ ہے کہ اسلام اور حق پرستوں کو باطل کی سازشوں کا ہمیشہ سے ہی سامنا رہا ہے۔ ہرکسی پر واضح ہے کہ جب سے حق دنیا میں موجود ہے، باطل بھی اس کے مقابلے میں رہاہے۔ نوروظلمت کی کشمکش، خیر وشر کی جنگیں، حق وباطل کی نبرد آزمائیاں، ایمان وکفر کی معرکہ آرائیاں اورنیک بختی وبد بختی کے قصے روز اول سے ہیں اور تا ابد رہیں گے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہرگھڑی ہر آن سرفروشوں کی جماعت ، باطل اوراس کے سرغنوں کی بیخ کنی کے لیے موجود رہی ہے۔ ابوجہل و ابولہب کی کارستانیاں ہوں یا عقبہ و ولید کی ہنگامہ آرائیاں، عبداللہ بن ابی کے ہتھکنڈے ہوں یا ابن سباءکی تیشہ زنی۔ ۔ یہ فرزندانِ وقت اسلام کے سچے نام لیواوں کے ہاتھوں عبرت ناک انجام کو پہنچتے رہے ہیں۔ پھران سب ابن الوقتوں کے مقاصد ایک ہی تھے، طریقہ واردات بھلے مختلف رہاہو۔
انہی میں سے ایک فتنہ دعوائے نبوت کا فتنہ تھا۔ لیکن چونکہ شمع نبوت کے پروانوں نے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان:”اَنا َخَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَانَبِیَّ بَعدِی“(میں آخری نبی ہوں ، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا)سن رکھاتھا، اس لیے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے جھوٹ کی چمنیاں زیادہ دھواں نہ اگل سکیں اور یہ سب مکاربہت جلد ہی اپنے انجام کو پہنچے۔
ختم نبوت امت مسلمہ کامتفقہ و اجتماعی عقیدہ ہے۔ اس لیے کہ اگر اس مسئلہ پر ایک آیت بھی اس طرح کی ہوتی تو اس عقیدے کی قطعیت کے لیے کافی تھی، جبکہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات ختم نبوت پر دلالت کرتی ہیں۔ اسی طرح اس عقیدے پر احادیث بھی تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔ دوسو سے زائد احادیث ایسی ہیں جن سے عقیدہ ختم نبوت ثابت ہوتاہے۔ اس حوالے سے اگر یوں کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ قرآن وحدیث میں اس قطعیت کے ساتھ اور کوئی مسئلہ بیان نہیں کیاگیاجتنا مسئلہ ختم نبوت کابیان ہوا۔ پھر امت محمدیہ کا اس پر اجماع بھی ہے۔
توحید الٰہی جس طرح تمام ادیان میں اجتماعی عقیدہ ہے، اسی طرح ختم نبوت کا عقیدہ بھی تمام انبیاء، تمام آسمانی کتابوں اور تمام آسمانی ادیان کا متفقہ اور اجتماعی عقیدہ ہے۔ اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ چھان ماریے، اس عقیدے کا ظہور اس طرح سے ہواکہ امت میں جس کسی ناعاقبت اندیش نے نبوت کا دعوی کیا اس کا سر، تن سے جدا کردیا گیا۔ یہ اسلام کے ہر دور میں ہوتارہا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگائیے کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی جہاد کا آغاز ہی مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں لڑی جانے والی جنگ یمامہ سے ہوا۔ یہی وہ جنگ ہے جس میں سات سو حفاظ صحابہ کرام نے جام شہادت نوش فرمایا۔ گویاعقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی خاطر سب سے زیادہ اور یک بارگی صحابہ کرام شہید ہوئے۔
سات ستمبر 1974 کا دن بهی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تهی،جب نبوت کے جهوٹے دعویدار مرزا غلام قادیانی کے نجس عقیدہ کو کفر اور اس کی ذریت کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئین کے مطابق غیر مسلم قرار دیے دیا،تب سے 7 ستمبر کا دن تحفظ ختم نبوت کی یادگار کے طور پر گذارا جاتا ہے.
آج بھی اس امت کو یکجھتی کی ضرورت ہے۔
محمد قاسم شامزئی
5,734 total views, 4 views today