پاکستان پانی، ماحولیات، تعلیم، جنگلات، غربت اور ابادی میں اضافے کے مسائل میں دنیا میں سرفہرست ممالک میں جگہ پاتا ہے۔
یہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ ماحولیات میں الودگی ائے روز بڑھ رہی ہے۔ جس تیزی سے یہاں ابادی بھڑ رہی ہے اسی تیزی سے یہاں جنگلات کٹ رہے ہیں۔ پانی کے ذخائر خشک ہورہے ہیں، گلیشئر پگھل رہے ہیں، بجلی کی قلّت بڑھ رہی ہے، تعلیم کے مواقع ختم ہو رہے ہیں، مواصلات کا نظام درہم ہورہا ہے، صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں، خوارک کم یا ناقص ہورہی ہے مگر ساتھ دوائیوں کا کاروبار ابھر رہا ہے۔
ایسے میں اگر کوئی پانی کے ذخائر یعنی ڈیمز کی بات کرتا ہے تو بھلی لگتی ہے۔ مگر کیا یہ بات یا اس سے جڑی ہوئی کوئی چندا مہم اتنے بڑے منصوبوں کے لیے کوئی دیرپا حل نکال سکتی ہے ایک بہت بڑا سوال بن جاتا ہے۔
ایسے منصوبوں کے لیے خطیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری بیرون ممالک اور اداروں کی مدد سے ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ملک کا دنیا میں اچھا کردار، نام اوربااعتماد ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ہمارے یہاں چیف جسٹس نے کچھ عرصہ قبل دیامر بھاشا اور مہمند ڈیمز کے لیے چندا مہم شروع کی۔ اس کے بعد ملک کے نئے وزیر اعظم نے یہ مہم تیز کردی۔ یہ سب قابل ستائش اقدامات ہیں لیکن کیا ان سے ان ڈیموں کے لیے درکار رقم اکھٹا ہوسکتی ہے اور کیا ان منصوبوں پر کام دیرپا ہوسکتا ہے اپنی جگہ اہم سوالات ہیں۔
صرف دیامر بھاشا ڈیم پر لاگت کا تخمینہ چودہ سو ارب سے ذیادہ ہے۔ اور یہ تخمینہ ابھی کا ہے۔ چند سالوں میں اس میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
اگر وزیر اعظم اپنی حیثیت میں قوم سے کسی چندے کی اپیل کرتے ہیں تو اس کا جواز بنتا ہے کہ وہ ایک پبلک شخصیت ہوتا ہے۔ مگر کوئی سرکاری افسر اگر اپنا کام چھوڑ کر کسی ایسی مہم میں لگ جائے تو اسکا اپنا ادارہ متاثر ہوسکتا ہے۔ وہ انصاف کی فراہمی میں تعصب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مثلاً کوئی ارب پتی پر کورٹ میں کرپشن کا کیس چل رہا ہے اور وہ جھٹ سے اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ چیف جسٹس کے ڈیم فنڈز میں پانچ کروڑ یا ایک ارب روپے جمع کرتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک منصف کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے جس نے یہی مہہم بھی شروع کر رکھی ہوجس میں ملزم اتنی خطیر رقم جمع کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ ویسے ملک ریاض پر کیس ایک ثبوت ہے جس کی اندرونی کہانی اذیت ناک ہے۔
وزیراعظم نے اچھا کیا چندے کی اپیل کی۔ شائد اس کی اپیل پر لوگ کچھ رقم جمع بھی کر دے لیکن جو اصل کام ان ڈیموں کی تکمیل کے لیے چاہئے وہ بیرون ممالک اور اداروں سے سرمایہ کاری کروانا ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری کرنے سے ورلڈ بینک نے اس وجہ سے انکار کیا کہ دیامر اور گلگت بلتستان کو بھارت متنازعہ علاقہ مانتا ہے اور اس کے لیے بیرون ملک خوب لابی کرتا ہے۔
پاکستان کو چندہ مہم کے ساتھ ساتھ اپنی سفارت کاری تیز اور مؤثر کرنی ہے۔ اس کے لیے ملک کا امیج بھی اچھا بنانا ہے تاکہ بیرون ممالک اور ادارے اعتماد کر سکے۔
بدقسمتی سے ہماری سیولیئن حکومتوں کو ہمیشہ اندرونی طور پر دباؤ میں رکھا جاتا ہے تاکہ وہ آزادانہ فیصلے نہ کرسکے۔ اس دباؤ کو ہمارے بعض ادارے بھی بڑھا دیتے ہیں۔ ایسے میں حکوت کچھ فیصلے لیتی ہے پھر ان سے واپس ہٹ جاتی ہے۔ جس سے ملک کا امیج بیرون دنیا میں مزید خراب ہوجاتا ہے۔
دوسری اہم بات جو ماحولیات اور ڈیموں سے جڑی ہوئی ہے وہ ان ڈیموں کا حجم ہے۔ ماہرین ماحولیات چھوٹے ڈیموں کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان سے ماحولیات، سماجیات اور معاشیات پر برے اثرات کم پڑتے ہیں۔
چندہ مہم اپنی جگہ درست ہے مگر یہ دیرپا حل نہیں ہے۔ فرض کرلیں خدا خواستہ اس چندہ مہم میں سو ارب روپے جمع ہوتے ہیں جس سے حکومت اس ڈیم پر کام شروع کردیتی ہے۔ سو ارب سے دیامر بھاشا ڈیم کا دس فی صد حصّہ بھی نہیں بن سکتا۔ کیا اس پر غور کیا گیا ہے ک اس رقم کو لگانے کے بعد کیا کیا جائے گا؟ یا یہ رقم یوں ضائع ہوجائے گی۔
اس لیے دیرپا حل کے لیے ضروری ہے کہ چندے وغیرہ کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک سے سرمایہ کاروں کو ان منصوبوں کے لیے تیار کرنا چاہئے۔ ایک چین پر تکیہ کرنے سے بات نہیں بنے گی۔ چین نے اس مںصوبے کو اپنی سرمایہ کاری کا حصّہ نہیں بننے دیا۔ چین نے اسی دریا پر داسو ڈیم والا بجلی منصوبے کو تو لیا لیکن دیامر بھاشا سے وہ بھی بھاگ گیا۔
ایسے میں پھر بات وہی اکر رک جاتی ہے کہ حکومت اپنا فرض نبھاتے ہوئے بین الاقوامی طور پر پاکستان پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے جس کا کوئی امکان مستقبل قریب میں نظر نہیں اتا۔
2,230 total views, 2 views today