تحریر: ڈاکٹر امیرزادہ خان یوسف زئی
جمعیت علماء اسلام ملک گیر مذہبی سیاسی تنظیم ہے، جس کی جڑیں عوام میں بہت مضبوط اور گہری ہیں۔ ملک بھر کے علماء کرام، شیوخ الحدیث، مفتی عظام اور مشائخ اسلام اس سے وابستہ ہیں۔
انٹرا پارٹی الیکشن ہورہاہے اس کے لیے پانچ سال بعد نئے اسلامی سال 1440ہجری کے پہلے دن یکم محرم الحرام کو جمعیت علماء اسلام پاکستان کی رکنیت سازی مہم کا حسین اور باوقار انداز میں اسلام آباد میں آغاز کیاجا چکا ہے۔
پہلا رکنیت فارم قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کا بھرا گیا، مرکزی ناظم انتخابات قائد سندھ علامہ راشد محمود سومرو صاحب نے قائد محترم کا رکنیت فارم بھرا، اس موقع پر جمعیت علماء اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری، حضرت مولانا عبدالواسع سمیت تمام مرکزی اور صوبائی نظمائے انتخابات بھی موجود تھے۔
رکن سازی یعنی پرانے کارکنان کی از سرنو رکنیت یا نئے کارکنان کو رکن بنا کر جمعیت علماء اسلام کا پلیٹ فارم مہیا کرنا یہ عمل جمعیت علماء اسلام کا صد سالہ تاریخی تسلسل ہے، پہلے تین سال اور اب ہر 4 سال بعد الیکشن کمیشن کے قواعد کے مطابق رکنیت سازی اور انتخابات ہر رجسٹرڈ جماعت کیلے لازم ہیں، سو ملک گیر اور رجسٹرڈ جماعت ہونے کے ناطے جمعیت علماء اسلام بھی تسلسل سے ان قومی ضابطوں پر عمل پیرا ہے۔
رکنیت سازی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے نامزد انتخابی عملہ جنہیں ناظمین انتخابات کہا جاتا ہے ملک کے طول و عرض میں کارکنان کی جماعت سے وابستگی کی تجدید کراتے ہیں یا نئے کارکنان کو جماعت کا حصہ بناتے ہیں، رکنیت سازی کے ننتیجے میں جمعیت علماء اسلام کے کارکنان کی ملک بھر میں بڑی تعداد رجسٹرڈ کارکنان کی تعداد کا بھی اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ اور اب کی بار مرکزی ناظم انتخابات مولانا راشد محمود سومرو صاحب کی کاوشوں سے ایک موبائل ایپ بھی لانچ کی جا رہی ہے جس کی مدد سے باسانی تصدیق کی جا سکے گی کہ ملک بھر میں کتنے اراکین نے اس عمل میں حصہ لیا۔
اس وقت ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں میں جمعیت علماء اسلام کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر بیک وقت کئی لاکھ علماء بنیادی ممبر کی حیثیت سے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں، اس کے علاوہ بھی لاکھوں کی تعداد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے خواص اور عوام الناس سمیت خواتین کی بڑی تعداد جمعیت علماء اسلام کا رکنیّت فارم پر کر کے بآسانی ممبرز بن سکتی ہیں۔
رکنیت سازی کی یہ زبردست مہم چار ماہ تک جاری اور ساری رہے گی، جس کے بعد ملک بھر کی تمام تنظیمی ڈھانچے تشکیل دیئے جائیں گے جو فی الحال آج کے دن سے دستوری طور پرتحلیل ہو چکے ہیں، ان میں بنیادی یونٹ کی سطح سے لیکر مرکز یعنی پاکستان کی سطح تک کی تنظیموں کا قیام حالیہ رکنیت سازی مہم کے ذریعے بننے والے ممبران جماعت (مجلس عمومی کے اراکین) ہی کریں گے۔
آپ یوں سمجھیں کہ اس ترتیب سے ملک میں تنطیم سازی کا ڈھانچہ ہو گا کہ ابتدائی یونٹ سے یوسی پھر ٹاؤن/تحصیل/تعلقہ/، اگلے مرحلے میں اضلاع، پھر چاروں صوبے بشمول گلگت بلتستان آزاد کشمیر، قبائلی علاقہ جات اور آخری مرحلے میں مرکز یعنی کل پاکستان کا از سرنو انتخاب ہو گا، ہر سطح کی مجلس عمومی کے اراکین خفیہ رائے شماری یعنی ووٹ کے ذریعے اس سطح کے امیر اور جنرل سیکرٹری کا انتخاب کریں گے۔
اب کی بار انشاء اللہ نئے جذبے اور ولولے سے رکنیت سازی مہم کا آغاز ہو چکا ہے اگلے کچھ دنوں میں رکنیت سازی کی یہ مہم آپ کی دہلیز پر دستک دینے والی ہے۔ آئیے اصل مقصد کی بات عرض کرتا چلوں کہ اگر آپ پہلے سے جمعیت علماء اسلام کے کارکن ہیں، یا آپ تازہ دم ہو کر جمعیت علماء اسلام میں شمولیت کے خواہشمند ہیں تو ابھی سے تیاری کیجیئے جمعیت علماء اسلام ملک میں قرآن وسنت کے نظام کی بالادستی اور اعلاء کلمتہ الحق کیلئے عرصہ دراز سے میدان عمل میں ہے۔آج ہمیں دھرتی سندھ کی عظیم روحانی شخصیت ولی کامل سابق امیر جے یوآئی مولانا عبدالکریم بیرشریف یاد آرہے ہیں جنہوں نے JUI کا رکنیت فارم پُر کرتے ہوئے ازراہ فخر فرمایا: اللہ تعالٰی جب مجھ سے میرے اعمال کی پُرسش کرینگے تو میں کہونگا علمائے کرام کی جماعت JUI کا رکنیت فارم لایا ہوں، میرا عمل یہی ہے کہ میں نے علمائکرام کا ساتھ دیا اور تیرے دین کی سربلندی کیلئے مصروفِ عمل جمعیت علماء اسلام کے شانہ بشانہ اپنی صلاحیتیں وقف کر دیں، ہمارے لئے بھی JUI کی رکنیت باعث فخر و مان ہے، اللہ ہمیں اکابر کی س امانت جماعت کے ساتھ صبر و اخلاص اور استقامت کیساتھ وابستہ رکھے۔آمین
قائدجمعیت کی پریس کانفرنس کا مکمل متن
جمعیت علماء اسلام پاکستان کی رکن سازی کاآئندہ پانچ سال کے لئے آغازکردیاگیاہے،جمعیت علماء اسلام، پاکستان کی ایک مسلمہ سیاسی جماعت ہے جس کے اکابرین نے برصغیرکی آزادی کے لئے انگریزکے خلاف قربانیاں دیں،قیام پاکستان کے بعدپاکستان کوایک مکمل اسلامی ریاست بنانے کے لئے مسلسل جدوجہدکی اورجدوجہدکاسلسلہ آج بھی بدستورجاری ہے،اس اعتبارسے جمعیت علماء اسلام غریب لوگوں کی جماعت ہے،قیادت سے لیکرکارکن تک ایک ہی سطح کے لوگ ہیں،آج پاکستان میں انہی کومعززکہاجارہاہے اورغریب انسانیت ان کے دروازے پرغلام کی طرح بیٹھی ہوئی ہے ہم نے ان قوتوں سے غریب لوگوں کونجات دلائی ہے،صوبہ خیبرپشتونخوااوربلوچستان میں بڑے بڑے خوانین اورسردارجن کاغرورآسمان کوچھورہاتھا،لیکن ان فقیرمنش لوگوں کی جدوجہدکے نتیجے میں ان کاغرورزمین بوس ہوچکاہے،اس وقت صوبہ سندھ کے اندرجمعیت علماء اسلام ایک بڑی سیاسی قوت کے طورپرتسلیم کی جارہی ہے اورکسی بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ یاملک کے داخلی اسٹیبلشمنٹ کے سہارے نہیں بلکہ ان کوناراض کرکے ہم نے یہ پروازکی ہے اورآج پاکستان کی ایک مسلمہ قوت کے طورپراس کوتسلیم کیاجارہاہے،ہمارے سامنے اگرمسلسل کوئی طاقت رکاوٹ بنی رہی ہے تووہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ہے کہ ہم ملک کے نظام پران کے سپرمیسی سے اختلاف رکھتے ہیں اورہمارے ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ پاکستان کے آئین یہ میثاق ملی ہے،اورآئین کے دائرہ کارکے اندررہتے ہوئے تمام فرائض سرانجام دیئے جائیں،اس طریقے سے تمام ادارے اپنے آئینی ذمہ داروں سے بھی خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآں ہوسکیں گے اورعوام اوران کے درمیان احترام اوراعتمادکارشتہ بھی برقراررہے گا،ہم آج بھی خیرخواہی کی بنیادپریہی رائے رکھتے ہیں اورخیرخواہی کی بنیادپراس کاپیغام ہروقت پھیلارہے ہیں،اس وقت صورتحال ہمارے ملک کے لئے بہت مشکل ہے،ہماری خارجہ پالیسی اضطراب کاشکارہے،ہم بیحیثت ایک ریاست کے بین الاقوامی تعلقات میں سفارتی آداب سے بھی ناواقف نظرآرہے ہیں،ہم کسی دوست کودوست نہیں رکھ سکتے،سترسال کے بعدچین کے ساتھ ہماری گہری اورمیٹھی دوستی اقتصادی دوستی میں تبدیل ہوئی،آج نئی حکومت آنے کے بعداس اعتمادکوپھردھچکہ لگاہے،سی پیک منصوبہ جوپاکستانی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے اورپاکستان کے مستحکم اورروشن مستقبل جومعیشت کاہے ہمارا،معیشت کے روشن مستقبل کی ضمانت فراہم کرتاہے،آج وہ عدم اعتمادکاشکارہوتاچلاجارہاہے،جس کے پاس کوئی وژن نہیں ہے،ساری زندگی قوم کونئے وژن،نئے وژن کی باتیں کرتے رہیں لیکن نئے وژن کی جگہ پرسوائے خابیدہ خوابوں کے ان کے ہاتھ میں اورکچھ بھی نہیں ہے،اس لئے ہم سفارتی محاذپرپاکستان کے مستقبل کوتاریک دیکھ رہے ہیں،مغرب اورمشرق کی لڑائیوں میں پاکستان ایک بارپھراس کی آماجگاہ بنتاچلاجارہاہے،اور ہمارے پاس کوئی ٹھوس پالیسی اورٹھوس نظریہ موجودنہیں ہے،عوام نے دیکھا کہ قادیانی نیٹ ورک متحرک ہوگیاہے اوربین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ اس کی پشت پرہے،ہمارے ملک کانیانظام جن لوگوں کے ہاتھ میں گیاہے،وہ پاکستان میں اس کے ازسرنوکردارکے لئے انہیں سپورٹ کررہے ہیں اورملکی معیشت کوازسرنواس طرح تربیت دیاجارہاہے کہ اس کواس بین الاقوامی معیشت کے تابع کردیاجائے جو بین الاقوامی معیشت اس وقت یہودی لابی کے کنٹرول میں ہے،بہت بڑے ایک نظریاتی تصادم کی طرف ہم جارہے ہیں،ابھی توآغازہی ہے،جمعہ اٹھ دن ہوگئے ہیں،ہم آئے روزایکپسپوزہوتے چلے جارہے ہیں،حکمران اپنے آپ کوایکسپوزکرتے چلے جارہے ہیں،مہنگائی چندہی دنوں میں اسمان کوچھونے لگی،دو،دوگنا،تین،تین گناقیمتیں بڑھ گئیں،غریب آدمی کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے،ملک کے لئے مشکلات پیداہورہی ہیں،پاکستان میں دینی مدارس باقاعدہ،منظورشدہ رجسٹرڈنیٹ ورک ہے،تمام مکاتب فکرکے مدارس اسی ایک نیٹ ورک کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن یک طرفہ طورپرحکومت نے پورے ملک کے مدارس کی رجسٹریشن کومنسوخ کردیاہے اورپھرتعلیمی اداروں کامعاملہ نیکٹاکے حوالے کردیاگیاہے،نیکٹاتودہشت گردی کوکاؤنٹرکرنے کاایک ادارہ ہے،حکمران نے دینی تعلیمی ادارے اس کے حوالے کئے،ہم اس کوتسلیم نہیں کریں گے،نئے فارم جوچھپے ہیں ہم ان فارموں کوسربازارپھاڑیں گے،اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے،ہم اس پرمکمل مزاحمت کے لئے تیارہیں،حکومت بتائے کتنی تیارہے،غریب طلبہ جولوگوں کے صدقات اورزکواۃ کے مستحق ہیں اگرعیدالاضحی کے موقع پرکسی مدرسے کوقربانی کی کھالیں دیتے ہیں ان مدارس کے خلاف ایف آئی آرکاٹ دی گئی ہے اورسناہے کہ اب توکچھ مدارس کے مہتممین کے خلاف عدالتوں نے ایک،ایک سال قیدکی سزابھی سنادی ہیں،ایک کونساپاکستان ہے،یہ ریاست مدینہ ہے،کیاہم ریاست مدینہ کی طرف بڑھ رہے ہیں،یاریاست مدینہ کے تصورکوختم کرنے کی طرف جارہے ہیں،تضادہے دینی مدارس کی مخالفت دین کی مخالف کے بغیرنہیں ہوسکتی،افرادپربحث ہوسکتی ہے لیکن پورے ملک کے مدارس کے بارے میں یکساں سوچ رکھناکہ وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اورنظام کے لئے قبول نہیں ہیں،اتنابھی گزراہواوقت نہیں ہے کہ ہم پاکستان میں اس دباؤکے تحت زندگی گزاریں،ہم پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزاریں گے،اپنے اداروں کاتحفظ کریں گے،ان کے لئے قربانیاں دیں گے،حکومت یہ جنگ مت چھیڑے ورنہ پھراس کے دن بھی گنے جاچکے ہیں،اس سلسلے میں،میں نے وفاق المدارس کوبھی اس صورتحال سے آگاہ کیاہے،اس کی سنگینی سے بھی اس کوآگاہ کیاہے،اوراس کویہ بھی بتایاکہ مدارس کی تمام تنظیموں کورابطے میں لیاجائے تاکہ اس پرایک واضح ردعمل دیاجائے،پورے ملک میں صوبائی سطح پربھی مدارس کے اجتماعات منعقدکئے جائیں گے،ایک جامع پالیسی مرتب کی جائے گی،جوجارحانہ،ناجائز،غیرقانونی،غیرآئینی اقدامات ہیں اس کے مقابلے میں اپنی پالیسی وضع کریں گے اوراس کابھرپوراندازکے ساتھ ہم اپناردعمل دیں گے،اب بھی وقت ہے کہ حکومت اپنے فیصلے واپس لے اگرفیصلے واپس نہیں لے گی تومیاں عاطف کی طرح وہ فیصلے پھرہم واپس کروائیں گے۔
جمعیت علماء اسلام کا مختصر تعارف
ضبط و تحریر : مفتی محمد اصف خان
1857ء کی مسلح جدو جہدانگریز سامراج سے آزادی ہند کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے اور آزادی ہند کی مسلح جد و جہد کے بجائے سیاسی جد وجہد جاری رکھنے کے لئے جملہ علماء ہند نے 1919ء میں جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی، چونکہ جمعیت علماء ہند مسلم لیگ کی تقسیم ہند کے فارمولے سے متفق نہیں تھی، اس لئے 1945ء میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی، جو انگریز سے آزادی کے ساتھ ساتھ مسلمانان ہند کے لئیالگ مملکت کے حصول کے لئے کوشش کر رہی تھی۔آخر کار 1947ء میں انگریز سے ہند کو آزادی ملی اور مسلمانان ہند کو پاکستان کی صورت میں الگ مملکت ملی۔
1947ء کے قیام پاکستان سے لے کر آج تک جمعیت علماء اسلام ملکی سیاست میں ایک اہم اور سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، اور ملکی سیاست میں اپنا مثبت کردار ادا کررہی ہے۔
1953ء کی تحریک ختم نبوت جو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر 1974ء میں منتج ہوئی، اسکی قیادت کا سہرا بھی جمعیت علماء اسلام کو جاتا ہے۔
1977ء میں تحریک نفاذ مصطفی حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت میں ہوئی، جس میں پاکستان کی ساری مذہبی اور سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
پارلیمنٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں ساری جماعتوں کی طرف سے متفقہ اپوزیشن لیڈر حضرت مولانا مفتی محمودؒ تھے، جو 1970ء میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلی بنے، جن کے دور وزارت کی نمایاں خصوصیات حصب ذیل ہیں:
1. صوبے میں اسلامی اور مشرقی روایات کو قائم کرنے کے لئے عملی کام کیا۔
2. شراب پر پابندی لگائی۔
3. صوبے کی سرکاری زبان اردو کو قرار دیا۔
4. سرکاری لباس اور سکول یونیفارم قمیض شلوار کو لازمی قرار دیا۔
5. نصاب تعلیم میں عربی اور اسلامیات کو لازمی قرار دیا۔
6. سود کی لعنت پر پابندی عائد کی۔
مولانا مفتی محمود ؒ کے بعد 1984ء سے مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام تاحال اپنا کردار اداء کر رہی ہے۔
جس کی وجہ سے 1988ء سے آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ میں اپنا جمہوری، آئینی، پارلیمانی کردار ادا کر رہی ہے۔
1988ء سے آج تک جمعیت علماء اسلام پاکستان کی سیاسی منظر پر سب سے بڑی سیاسی، مذہبی جماعت ہے۔
اس وقت جمعیت علماء اسلام کے موجودہ سیٹ اپ میں قومی اسمبلی، سینٹ، بلوچستان اسمبلی، خیبر پختون خواہ اسمبلی اور گلگت، بلتستان اسمبلیوں میں ممبران کی مجموعی تعداد 50 کے قریب ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے اہداف:
1. مملکت پاکستان کی عوام کے ایمان اور عقیدے کا تحفظ۔
2. مسلمانوں کی منتشر قوت کو جمع کر کے علماء کرام کی رہنمائی میں اقامت دین اور اشاعت اسلام کے لئے پر امن جد و جہد کرنا۔
3. شعائر اسلام اور مرکز اسلام یعنی حرمین شریفین کا تحفظ، پاکستان میں موجود مختلف اسلامی اداروں بشمول دینی مدارس، مسجد، دار الیتامی، مکتبات کی حفاظت کرنا۔
4. قرآن کریم اور احادیث نبویہ کی روشنی میں زندگی کے تمام شعبوں میں سیاسی، اقتصادی، معاشی، اور مذہبی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنا، اور اس کے مطابق مثبت عملی جد و جہد کرنا۔
5. پاکستان میں اسلامی عادلانہ نظام حکومت کے نفاذ کے لئے کوشش کرنا۔
6. پاکستان میں جامع و عالمگیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کے لئے کوشش کرنا، جو پاکستانی عوام کے ایمان اور عقیدے کے موافق ہو، دینی اقدار اور اسلامی نظام کا تحفظ کرنا۔
7. پاکستان کے موجودہ آئین کو تحفظ دینا، اور خلاف اسلام قوانین کو اسلام کے موافق کرنا، اور کسی بھی غیر اسلامی قانون سازی کو بننے کے راستے میں رکاوٹ بننا۔
8. پاکستان کی حدود میں تقریر و تحریر و دیگر آئینی ذرائع سے باطل فتنوں کی فتنہ انگیزی، مخرب اخلاق اور خلاف اسلام کاموں کی روک تھام کرنا۔
9. مسلمانان عالم خصوصا پڑوسی اور قریبی اسلامی ممالک کے ساتھ مستحکم اور برادرانہ روابط استوار کرنا۔
10. تمام دنیا کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر دوستانہ تعقات قائم کرنا۔
جمعیت علماء اسلام پاکستان کے اغراض و مقاصد
(۱) جمعیت علماء اسلام کی رہنمائی میں مسلمانوں کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اقامت دین اور اشاعت اسلامی کیلئے منظم جدوجہد کرنا ، نیز اسلام اور مرکز اسلام یعنی جزیرۃ العرب اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا ۔
(۲) قرآن مجید و احادیث بنویہ کی روشنی میں نظام حیات کے تمام شعبوں سیاسی ، مذہبی ، اقتصادی ، معاشی اور ملکی انتظامات میں مسلمانوں کی راہنمائی اور اس کے موافق عملی جدوجہد کرنا ۔
(۳) پاکستان میں صحیح حکومت اسلامیہ برپا کرنا اور اسلامی عادلانہ نظام کیلئے ایسی کوشش کرنا جس سے باشندگان پاکستان ایک طرف انسانیت کشن سرمایہ دارے اور دوسری طرف الحاد آفرین اشتراکت کے مضر اثرات سے محفوظ رہ کر فطری معاشرتی نظام کی برکتوں سے مستفید ہو سکیں ۔
(۴) مملکت پاکستان میں ایک ایسے جامع اور ہمہ گیر نظام تعلیم کی ترویج و ترقی کیلئے سعی کرنا جس سے مسلمانوں میں خشیت الٰہی ، خوف آخرت ، پابندی ارکان اسلام اور فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی انجام دہی کی صلاحیت پیدا ہو سکے ۔
(۵) مسلمانان پاکستان کے دنوں میں جہاد فی سبیل اللہ ، ملکی دفاع ، استحکام اور سالمیت کیلئے جذبہ ایثار و قربانی پیدا کرنا ۔
(۶) مسلمانوں میں مقصد حیات کی وحدت ، فکر و عمل کی یگانگت اور اخوت اسلامیہ کو اس طرح ترقی دینا کہ ان سےء صوبائی ، علاقائی ، لسانی اور نسلی تعیبات دور ہوں ۔
(۷) تمام محکوم مسلم ممالک کی حریت و استقلال اور غیر مسلم ممالک کی مسلم اقلیتوں کی باعزت اسلامی زندگی کیلئے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرنا ۔
(۸) مختلف اسلامی اداروں مثلاً مساجد ، مدارس ، کتب خانوں کی حفاظت اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنا ۔
(۹) تحریر و تقریر اور دیگر آئینی ذرائع سے باطل فرقوں کی فتنہ انگیزی مخرب اخلاق اور مخالف اسلام کارروائیوں کی روک تھام کرنا ۔
3,204 total views, 2 views today