تحریر : رشید احمد
بلدیاتی نظام عوامی مسائل کے حل کا حقیقی اور موثر راستہ ہے اور ترقیافتہ ممالک میں اسے بہت اہم گردانا جاتا ہے اور زیادہ تر ممالک میں پولیس اور میونسپل اداروں کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبے بھی میئر کے ماتحت ہوتے ہیں جس کے باعث بنیادی مسائل کے حل اور حقوق کیلئے ان لوگوں کو کہیں اور جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے دورہ پشاور کے دوران پنجاب کی طرح خیبر پختونخوا میں بلدیاتی نظام کو تبدیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد صوبائی حکومت نے بلدیاتی نظام میں تبدیلی کیلئے باقاعدہ کام کا آغاز کر دیا ہے آئندہ سال متوقع بلدیاتی انتخابات کیلئے نظام میں مزید ترامیم تجویز کی گئی ہیں جن میں ویلج کونسل اور نائبر ہوڈ کی تعداد میں کمی اور میئر یعنی ضلع ناظم ، ناظمین کے براہ راست انتخاب کے علاوہ ان کیلئے تعلیم کی شرائط بھی رکھی گئی ہیں حکومت جو نیا نظام متعارف کرانے جا رہی ہے
اس کے مطابق یونین کونسل ناظم سمیت گیارہ کونسلرز پر مشتمل ہوگی نائب ناظم کی نشست ختم ہو جائے گی پانچ کونسلر براہ راست منتخب ہونگے جبکہ پانچ مخصوص نشستیں ہوگی تحصیل سطح پر ناظم کی بجائے نائب ناظم یا ڈپٹی میئر کا الیکشن ہو گا تحصیل کونسل کے نائب ناظمین ، ڈپٹی میئر بھی براہ راست عوام سے ووٹ لیکر منتخب ہونگے ۔ تحریک انصاف نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں خیبرپختونخوا میں جو بلدیاتی نظام رائج کیا اسکے لئے صوبائی حکومت نے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے 30 فیصد فنڈز نچلی سطح کی مقامی حکومتوں کو منتقل کئے جس کیوجہ سے لوگوں کے بہت سے مسائل حل ہوئے اور تحری انصاف کو انتخابات میں دوبارہ کامیابی ملنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے اس سے پہلے یہ تصور کیاجاتا رہا کہ کسی بھی طور پر ملکی سیاست اور پارلیمان تک پہنچنے پر بلدیاتی نظام اثر انداز نہیں ہو سکتا اور بلدیاتی نمائندوں کی کامیابی سے کسی بھی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن خیبر پختونخوا کے تجربے سے ثابت ہوا تحریک انصاف نے سابقہ تجربے کو بنیاد بنا کر بلدیاتی نظام کو مزید موثر بنانے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے جس کیلئے ممبران کی تعداد کم کرنے کے ساتھ ایک با اختیار اور بامقصد بلدیاتی نظام ترتیب دینا ان تجاویز میں شامل ہے
اور اسی کے پیش نظر پالیسی سازی اور ترقیاتی عمل کو الگ الگ کرنے کے خدو خال ترتیب دئیے جا رہے ہیں بلدیاتی نظام کی اصل روح کے مطابق بلدیاتی نمائندوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ گلی کوچوں کی فرش بندی ، نکاس آب ، صحت و تعلیم کے بنیادی مسائل حل کریں جبکہ ممبران قومی ، صوبائی اسمبلی کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نظام مملکت چلانے کیلئے پالیسیاں تشکیل دیں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کیلئے قانون سازی کریں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارے سکول ، ہسپتال سے لیکر گلی محلوں کے نظام ، تھانہ کچہریوں کے مسائل بھی ممبران قومی ، صوبائی اسمبلی نے اپنے کندھوں پر اُٹھا لئے ہیں اب اگر ایک عام ووٹر کی بات کی جائے تو وہ یہ تو نہیں کر سکتا کہ گلی محلوں کے مسائل کے حل کیلئے بلدیاتی نمائندوں کا انتخاب کریں اور قانون سازی کیلئے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا الگ چناؤ کریں بلدیاتی نظام میں تبدیلی کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو کبھی اس اہم مسئلے کے حل کی طرف کسی کو جانا ہے لہذا تحریک انصاف بلدیاتی نظام میں تبدیلی اور ممبران اسمبلی کو صرف پارلیمنٹ میں قانون سازی تک محدود کرنے کے حوالے سے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے خیبر پختونخوا کے ناظمین نے نئے بلدیاتی نظام کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے اور گزشتہ دنوں ناظمین نے اس حوالے سے احتجاج کرنے پر اتفاق کیا ہے ناظمین کا موقف یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے مشاورت کئے بغیر نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت کی جائے گی اگر مخالفت کی بات کی جائے تو ناظمین کی طرف سے تو مخالفت پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور ان کا بڑا اعتراض یہ تھا کہ صوبائی حکومت نے جو فنڈز بلدیات کیلئے مختص کئے اس کو پسند نا پسند کی بنیاد پر تقسیم کیا جا رہا ہے اس حوالے سے اپوزیشن کی سیاسی پارٹیوں کے علاوہ تحریک انصاف کے ممبران نے بھی سوالات اُٹھا ئے تھے اور اب جبکہ بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں لانے کا فیصلہ ہوا تو بھی سب نمائندوں نے اتحاد بنا کر اعتراضات اُٹھانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے
لیکن اس حوالے سے تاحال یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ بلدیاتی نظام میں ترامیم کرنے اور اس کو مضبوط و با اختیار بنانے کے عمل کو تاحال سامنے نہیں لایا گیا لیکن اس کا زیادہ نقصان بلدیاتی نمائندوں کو ہو گا کیونکہ تحریک انصاف نے اپنے پیمانے کے مطابق نظام میں تبدیلی کی جو منصوبہ بندی کر لی ہے یہی چیز سیاسی پارٹیوں کو منظور نہیں کہ ضلع ناظم اور دوسرے اہم عہدے عوام کی ووٹوں سے براہ راست منتخب ہونگے مروجہ سسٹم میں تو عوام کی بجائے کونسلرز کے ووٹوں سے ضلع ناظم اور دوسرے عہدوں کیلئے افراد کا انتخاب ہوتا آیا ہے جس سے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ ضلع ، تحصیل ناظمین اپنے آپ کو عوام کے سامنے جوابدہ ہونے کی بجائے کونسلرز اور یونین کونسل ناظمین کے تابع سمجھتے ہیں ۔جس کے باعث عام لوگوں تک اس نظام کے ثمرات نہیں پہنچ پا رہے ممبران کی تعداد کی کمی کے حوالے سے جو اعتراض کیا جا رہا ہے ماضی قریب کا اگر اس حوالے سے بغور جائزہ لیا جائے تو چالیس ہزار سے زائد افراد کو بلدیاتی میدان میں اُتارا گیا لیکن انہوں نے عوامی خدمت کی بجائے بعد میں اتحاد بنا کر اپنے لئے تنخواہیں اور مراعات منظور کرائیں جس کیوجہ سے بلدیاتی نمائندے عوامی فلاح سے زیادہ حکومت کے مالی خسارے کا سبب بن گئے اس خسارے میں کمی لانے کیلئے بلدیاتی نظام میں کفایت شعاری لائی جائے تو بہتر ہو گا ۔
2,647 total views, 2 views today