تحریر : غفور خان عادل
14 اکتوبر کو سوات کے دو صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کیلئے سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ اور انتخابی اُمیدواروں کیلئے الیکشن مہم چلانے کا سلسلہ نکتہ عروج پر پہنچ گیاہے جبکہ ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کے اُمیدواروں کے خلاف اپوزیشن جماعتوں نے ایکا کرکے مشترکہ طورپر اُمیدواروں کو میدان میں اُتار دیا ہے اور متحدہ اپوزیشن کی طرف سے حلقہ پی کے 3 میں ن لیگ کے اُمیدوار سردار خان اور پی کے 7 میں اے این پی کے اُمیدوار وقار خان کی حمایت کی جا رہی ہے اوراپوزیشن جماعتوں کے اس انتخابی اتحاد کو اپوزیشن کی طرف سے مضبوط اتحاد تصور کیا جا رہا ہے اور اس 7 جماعتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین کی طرف سے اپوزیشن کے اُمیدواروں کیلئے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے تاہم اپوزیشن کی طرف سے انتخابی مہم میں وہ تیزی اور دلچسپی دیکھنے میں نہیں آر ہی ہے جس کی توقع تھی تاہم اپوزیشن کی طرف سے محدود انتخابی مہم دیکھنے میں آ رہا ہے سوات کے صوبائی حلقہ پی کے 3 جو کہ ڈاکٹر حیدر علی خان کے دو حلقوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد انہوں نے پی کے 3 کو خالی کرایا جس پر ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے ان کے بھتیجے انجینئر ساجد علی خان کو ٹکٹ جاری کر دیا ہے جبکہ اس ہی حلقہ سے تحریک انصاف کے بانی کارکن محمدزیب خان بھی انتخابی میدان میں ہے وہ کافی مطمئن نظر آ رہے ہیں کہ حلقہ کے عوام اور تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن ان کے حق میں ووٹ استعمال کرینگے
محمد زیب خان ایک فعال سیاسی کارکن ہے جنہوں نے آزاد حیثیت سے ضلعی کونسلر جیت کر بعد میں تحریک انصاف کو تحفہ کر دیا تھا اب وہ صوبائی نشست کو جیتنے کیلئے آزاد حیثیت سے پنجہ آزمائی کر رہے ہیں 14 اکتوبر کو دو دھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا کہ محمد زیب خان کے دعوے حقیقت میں تبدیل ہو تے ہیں یا نہیں یا وہ محض دعوے ہی کر رہے ہیں تاہم یہ فیصلہ حلقے کے عوام نے کرنا ہے جبکہ محمدزیب خان کو پارٹی کے نامزد اُمیدوار کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کی پاداش میں شو کاز نوٹس میڈیا کے ذریعے جاری کیا گیا کہ وہ پارٹی کے اُمیدوار ساجد علی خان کے حق میں 24 گھنٹوں میں دستبردار ہو جائے لیکن انہوں نے ان کے حق میں دستبردار ہونے سے انکار کرتے ہوئے شوکاز نوٹس کو مسترد کر دیا ہے اور کئی دن گزر جانے کے باوجود بھی محمد زیب خان پارٹی اُمیدوار کے حق میں دستبردار ہونا تو درکنار وہ اپنے لئے باقاعدہ انتخابی مہم میں مگن ہے اس حلقہ میں متحدہ اپوزیشن کی طرف سے ن لیگ کے اُمیدوار سردار خان کی حمایت کی جا رہی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے ان کیلئے باقاعدہ انتخابی مہم بھی چلائی جا رہی ہے تاہم اپوزیشن کی طرف سے جاری مہم میں کوئی بڑا بریک تھرو یا تیزی دیکھنے میں نہیں آرہی ہے یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں شامل جے یو آئی کے سابق اُمیدوار علی شاہ کی طرف سے متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار سردار خان کی حمایت نہ کرنے اور اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے اُمیدوار ساجد علی خان کی حمایت نے علاقے میں انتخابی ماحول میں ڈرامائی تبدیلی لائی ہے اور ان کی حمایت کے بعد ایم ایم اے کی اپوزیشن کے اتحاد کا حصہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے
تاہم اس صورتحال نے پی ٹی آئی اُمیدوار ساجد علی خان کو ضرور فائدہ دیا ہے اور محمد زیب خان کی طرف سے پی ٹی آئی اُمیدوار ساجد علی خان کو ہونے والے نقصان کا ایم ایم اے کے سابق اُمیدوار علی شاہ ایڈوکیٹ پورا کر سکیں گے اور حلقہ پی کے 3 کے زمینی حقائق کومد نظر رکھتے ہوئے رائے عامہ میں یہ باتیں زیر گردش ہے کہ حلقہ پی کے 3میں پی ٹی آئی اور متحدہ اپوزیشن میں کانٹے کا مقابلہ ہو گا اس طرح سوات کے حلقہ پی کے 7 جو کہ ڈاکٹر امجد نے دو حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد خالی کرایا تھا اور تحریک انصاف نے اس حلقہ کیلئے حاجی فضل مولا کو میدان میں اُتار دیا ہے حاجی فضل مولا تحریک انصاف کے اُمیدوار نامزد ہونے کے بعد تحریک انصاف کے دیرینہ رہنما سعید خان نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے واضح کیا کہ چونکہ الیکشن 2018 میں ٹکٹ کا وعدہ میرے ساتھ کیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ ٹکٹ ایک ایسی شخصیت کو دی گئی جن کا پارٹی میں جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے سعید خان نے فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے باقاعدہ طور پر انتخابی مہم چلا رہے ہیں اس حلقے سے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے عوامی نیشنل پارٹی کے اُمیدوار وقار خان کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ فضل اکبر بھی آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں
اس حلقہ میں بھی متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وہ سرگرمیاں سامنے نہیں آئی جس کی توقع کی جاتی رہی ہے تاہم ان کی طرف سے محدود انتخابی مہم جاری ہے جبکہ اس حلقہ میں تحریک انصاف کے اُمیدوار حاجی فضل مولا اور آزاد اُمیدوار سعید خان کی انتخابی سرگرمیاں زور و شور سے جاری ہے تاہم اس دوران اپوزیشن کی طرف سے مہنگائی کے خلاف کبل چوک میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا جس میں اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ اُمیدوار وقار خان اور دیگر مقامی قیادت نے شرکت کی مظاہرین نے گھنٹوں تک کبل مین شاہراہ بند رکھا اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی جس کے بعد ان کی طرف سے کوئی بڑا انتخابی جلسہ یا جلوس یا کوئی قابل ذکر سیاسی و سماجی شخصیات کو اپنے ساتھ ملانے کے حوالے سے کوئی پیش رفت بھی سامنے نہیں آئی جبکہ کانجو میں ایک انتخابی تقریب منعقد ہوئی لیکن میڈیا کو دعوت نہ دینے کیوجہ سے ان کو اس تقریب کی میڈیا کوریج بھی نہیں دی گئی تاہم اپوزیشن جماعتوں نے حلقہ پی کے 7 کے انتخابی سرگرمیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا پر اکتفا کر رکھا ہے اور دیگر میڈیا کے ساتھ رابطوں نے فقدان کیوجہ سے ان کی انتخابی سرگرمیاں صرف سوشل میڈیا تک محدودرہ گئی ہے دوسری طرف تحریک انصاف کے نامزد اُمیدوار حاجی فضل مولا کی طرف سے بھرپور انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور میڈیا کے ساتھ تسلسل کے روابط کے باعث وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر موجود رہتے ہیں
حاجی فضل مولا کا شمار علاقے کے سنجیدہ اور با صلاحیت و تجربہ کار سیاستدانوں میں ہوتا ہے ان کے انتخابی مہم کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں کی تحریک انصاف میں شمولیت اور ان کی مکمل حمایت کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے دیگر لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کے انتخابی مہم چلانے میں علاقے کے ایک سیاسی شخصیت اور ناظم ویلج کونسل گل جبہ سلطان حسین کافی پیش پیش ہے اور سلطان حسین کی بھر پور تعاون اور ان کی طرف سے پی ٹی آئی اور حاجی فضل مولا کا ساتھ دینا حاجی فضل مولا کے حق میں ایک اہم انتخابی و سیاسی بریک تھرو تصور کیا جا راہ ہے سلطان حسین کا موقف ہے کہ حلقہ پی کے 7 میں اکٹھے ہونے والے چند سیاسی افراد کا اتحاد غیر فطری ہے ان لوگوں کے ساتھ عوام کے فلاح و بہبود کیلئے کوئی پروگرام نہیں ہے یہ لوگ صرف اور صرف علاقے کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ادھر تحریک انصاف کے رہنما آزاد اُمیدوار سعید خان کی طرف سے بھر پور انتخابی مہم جاری ہے اور علماء اہلسنت والجماعت کی طرف سے سعید خان کی حمایت کے بعد کبل کے معروف سیاسی خاندانوں لالہ کریم ، علی خان اور ان کے سیکڑوں ساتھیوں نے سعید خان کی مکمل حمایت کر دی ہے اس طرح کے اعلانات اور حمایت سعید خان کیلئے نیک شگون تصور کئے جا رہے ہیں جبکہ تحریک رورولی کے سربراہ فیاض خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے حاجی فضل مولا کی حمایت کو ایک بڑی انتخابی و سیاسی تبدیلی تصور کیا جا رہا ہے جو یونین کونسل کانجو میں کافی ووٹ بنک ہے اور اس یونین کونسل میں ملک عبدالکبیر خان کی طرح اہم خاندانوں کی حاجی فضل مولا کی حمایت کرنے سے ان کی پوزیشن مضبوط تصور کی جاتی ہے جبکہ اس طرح یونین کونسل کانجو میں سعید خان بھی ایک مضبوط اُمیدوار تصور کیا جاتا ہے اور علاقے میں نوجوانوں نے ملگری سعید خان کے نام پر جو تنظیم قائم کیا ہے اس تنظیم کے افراد سعید خان کیلئے دن رات ایک کرکے انتخابی مہم چلا رہے ہیں تاہم اس علاقے میں اے این پی کا بھی کافی ووٹ بنک ہے اور جماعت اسلامی ، جے یو آئی ، پی پی پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اس حلقہ میں وقار خان کی حمایت کررہے ہیں اگر کارکنوں کا ووٹ ان کے حق میں استعمال ہوا تو وقار خان مضبوط اُمیدوار ہونگے تاہم اصل فیصلہ عوام نے کرنا ہے جس کا فیصلہ 14 اکتوبر کو ہو جائے.
1,682 total views, 2 views today