تحریر : محمد غنی یوسفزئ
بائیس سال پہلے جب عمران خان نے سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف قائم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت ان کی خواہش تھی کہ سوات سے سیاسی سفر کا آغاز کیا جائے اس سے پہلے سوات کے اندر پی ٹی آئی میں چند لوگ شامل ہوئے تھے جن میں موجودہ سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر حاجی عبدالرحیم اور حضرت رحمان ماما سرفہرست تھے یہ 1996 کا زمانہ تھا عمران خان نے جب سوات سے سیاسی سفر کا اعلان کیا تو ان کا ارادہ تھا کہ پہلے سوات میں جلسہ منعقد کیا جائے رابطے کے بعد ہم نے اُن کو بتایا کہ نہ تو پارٹی کا جھنڈا ہے نہ بینر ہے نہ کوئی پوسٹر ہے جلسے کے دوران کم ازکم جھنڈے کا استعمال تو ضروری ہے انہوں نے جھنڈے کے بارے میں تجاویز مانگی ہم چند لوگ جن میں صوبائی رہنما محمد مرسلیم ، اویس احمد غنی ، حاجی عبدالرحیم ، حضرت رحمان ماما شامل تھے باہم مشورہ کیا اور ہر ایک نے اپنا ڈیزائن کردہ جھنڈا بنایا یہ سارے نمونے لیکر عمران خان کو پیش کئے گئے انہوں نے ساتھیوں سے مشورے کے بعد میرا تجویز کردہ جھنڈا جو کہ آج پوری دُنیا میں شان و شوکت سے لہرا جاتا ہے کی منظوری ہوئی اور اگلے ہی روز جھنڈوں کی کثیر تعداد مینگورہ پہنچا دی گئی اب ایک مسئلہ تو حل ہو گیا اس کے بعد جلسے کا انعقاد اس کیلئے ہم نے تیاریاں شروع کردیں اور پھر نشاط چوک مینگورہ میں ایک کامیاب جلسہ عام کا انعقاد کیااس جلسے کے بعد عمران خان اور دیگر قائدین کے حوصلے بلند ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگلا جلسہ بونیر میں ہو گا جلسے کے انعقاد کی تمام تر ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی چند ضروری اشیاء لیکر ہم بونیر سواڑئ پہنچے اور جلسے کیلئے اسٹیج اور دیگر بندوبست کیا گیا اگلے روز عمران خان نے بونیر آ کر جلسے سے خطاب کیا جو کہ بونیر کا جلسہ سوات کے جلسے سے قدرے کم تعداد میں لوگ شریک ہو کر جلسے کو رونق بخشی جلسے کے اختتام کے ساتھ ہی عمران خان نے ٹاسک دیا کہ اگلا جلسہ تیمرگرہ میں ہوگا بونیر کے جلسہ عام کے دوران چند لوگوں نے بھر پور ساتھ دیا اور انہوں نے عمران خان کی موجودگی میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا جن میں بونیر کے امیر الامان خان ، تیمرگرہ اوچ کے اعجاز خان شامل تھے اگلے مرحلے میں ہم ضروری ساز و سامان کے ساتھ تیمرگرہ میں موجود تھے اور تیمرگرہ میں بھی ایک کامیاب جلسہ منعقد کیا گیا اس دوران ہم نے ضلع بونیر ، ضلع دیر اور سوات میں تقریباً دو دنوں میں سات جلسے کئے جلسوں کے کامیاب انعقاد کے بعد عمران خان نے ایک جلسے میں میرا ماتا چھوم کر کہا کہ آج سے تم سوات کے ماما نہیں بلکہ پورے پاکستان کے ماما ہو مجھے بھی حوصلہ ملا اس کے بعد ہم نے بھر پور جدوجہد کی پارٹی کو منظم کرتے رہے ضلع بھر میں تنظیم سازی کا عمل شروع کیا ہر چھوٹے بڑے شہر ،گاؤں کی سطح پر تنظیم سازی مکمل کی جو کہ ایک سیاسی جماعت کیلئے نہایت ہی ضروری امر ہے ۔ اب سوات ، دیر اور بونیر میں پی ٹی آئی ایک مضبوط قوت بن چکی تھی لیکن انتخابات میں جیت کی اُمید بہت کم تھی 2002 کے انتخابات میں ہم نے سوات میں الیکشن لڑنے کیلئے ہر علاقے کا دورہ کیا اس دوران کوئی شخص الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھا ہم نے زبردستی کارکنوں کو راضی کیا اور الیکشن کے عمل میں حصہ لینے کا سلسلہ شروع کیا 2002 کے انتخابات میں ہم ملک بھر میں ایک صوبائی نشست جیت گئے جبکہ عمران خان خود سوات کے حلقہ NA21 جو اس وقت کا حلقہ تھا اور اس حلقے میں مینگورہ شہر اور دیگر بڑے گاؤں شامل تھے عمران خان نے الیکشن لڑا سوات کے عوام نے ان کو بھر پور مہمان داری کی اور تقریباً 10 ہزار کے لگ بھگ ووٹ ائے لیکن وہ الیکشن جیت نہ سکے اس کے بعد وقتاً فوقتاً پی ٹی آئی ترقی کرتی گئی ہماری جدوجہد کا سلسلہ جاری رہا ادھر عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا استعمال جاری رہا اور پھر 2013 کے الیکشن سے کچھ سال پہلے اسلام آباد میں ورکرز کنونشن منعقد کیا گیا اس دوران سوات سے ہزاروں کارکنوں کا قافلہ اسلام آباد پہنچ گیا کنونشن کے دوران عمران خان نے کارکنوں پر زور دیا کہ وہ اپنے آپس کے اختلافات ختم کر دیں کیونکہ پی ٹی آئی کے اندر جو لوگ اب موجود ہے ان میں سے چند لوگ جو کہ پی ٹی آئی کا جامہ پہن کر پی ٹی آئی کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان سے ہوشیار رہنا آہستہ آہستہ قافلہ رواں دواں تھا نوجوانوں جن میں ایک ممبر صوبائی اسمبلی فضل حکیم خان اور ایک ممبر صوبائی اسمبلی کے بڑے بھائی علی خان ، شیر افگن کاکا خان ، عبدالجمیل خان مرحوم ، قاسم سرحدی ، شاہی روم خان مرحوم ، ڈاکٹر احمد حسن خان سوات سے تعلق رکھنے والے دیگر بہت سارے ساتھی ہمارے ساتھ رہے ہم نے وقتاً فوقتاً اجلاس منعقد کئے جلسے کئے اور دیگر پروگرامات کئے جب 2013 کے الیکشن کا وقت آیا تو اس وقت پی ٹی آئی اونچی اُڑان کر رہی تھی خصوصاً صوبہ خیبر پختونخوا میں عوام کی اکثریت ان کے ساتھ تھی انتخابات میں پی ٹی آئی صوبے کی سب سے بڑی جماعت بن گئی جبکہ دوسرے صوبوں میں پوزیشن خاصی ناکام ثابت ہوئی اس کے باوجود صوبے میں اشتراک کی حکومت بن گئی ممبران اسمبلی نے بھر پور محنت کی ترقیاتی کام کئے لیکن اس دوران پسند نا پسند اور مفاد پرستوں نے ممبران اسمبلی کو یرغمال بنایا آج ہر کوئی پی ٹی آئی کا نظریاتی کارکن بن گیا تھا ورنہ 2002 کے عام انتخابات کے جن اُمیدواروں نے چیلنج قبول کرکے حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ان میں حلقہ پی کے 80 سے اس وقت شہری حلقے سے شیر افگن کاکا خان ، پی کے 81 سے عنایت خان گل دا ، پی کے 82 سے شوکت حیات خان ، پی کے 83 سے سعید خان ، پی کے 84 سے حنیف خان ایڈوکیٹ ، پی کے 85 سے خالد خان ، پی کے 86 اور این اے 30 سے ڈاکٹر لیات جبکہ این اے 29 سے خود عمران خان نے الیکشن میں حصہ لیا جبکہ 2013کے عام انتخابات میں ہر کوئی اُمیدوار بننے کا شوقین بن گیا تھا کیونکہ پارٹی کے دیرینہ اور بنیادی کارکنوں کی قربانیوں نے رنگ لایا 2013 کے عام انتخابات میں این اے 29 سے مراد سعید اور این اے 30 سے سلیم الرحمن جبکہ پی کے 80 سے فضل حکیم خان ، پی کے 81 سے عزیز اللہ گران ، پی کے 82 ڈاکٹرامجد ، پی کے 83 محب اللہ خان ، پی کے 84 محمود خان، پی کے 85 سے سید جعفر شاہ اے این پی جبکہ پی کے 86 سے ڈاکٹر حیدر علی خان بھاری اکثریت سے انتخابات جیت گئے تھے اور حکومت بھی پی ٹی آئی کی بن گئی تھی اس دور سے سوات میں بنیادی کارکنوں اور نظریاتی کارکنوں کو دیوار سے لگانے کا دور شروع ہوا۔ ہم تمام نظریاتی کارکنوں نے پارٹی ہائی کمان اور ممبران اسمبلی پر زور دیا کہ پارٹی کے اندر تنظیم نو کی جائے اور آج کی جیت پر خوشیاں منانے کی بجائے عوام کے مسائل حل کئے جائے ترقیاتی کام کئے جائیں اور کارکنوں کو ہر وقت اعتماد میں لیکر بڑے فیصلے کئے جائیں تنظیم نو پر اس لئے زور دیا جا رہا تھا کہ جب پارٹی کی تنظیم نو ہوتی ہے تو وہ ترقی کرتی ہے جبکہ تحریک انصاف میں الیکشن کے بجائے عہدوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جبکہ پارٹی میں نئے شامل ہونے والوں کا سلسلہ بھی عروج پر تھا پانچ سال اسی کشمکش میں گزر گئے اور اس دوران تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا گزرے ہوئے پانچ سالوں میں پی ٹی آئی نے میرٹ اور انصاف کا جنازہ نکال دیا اور نظریاتی کارکنوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا پھر بھی ان لوگوں نے اپنے 22 سالہ جدوجہد کی خاطر ہر فیصلہ قبول کیا اور گوشہ نشینی کی زندگی گزاری لیکن جب 2018 کے عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ان کارکنوں نے دوبارہ جدوجہد شروع کر دی اس وقت ہر کوئی ٹکٹ کا خواہش مند تھا اس دوران بھی نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کیا گیا پھر بھی انہوں نے اُف تک نہیں کیا اور 2018 کے عام انتخابات میں پرانے چہروں کو ترجیح دی گئی اس دوران عوام نے صرف پی ٹی آئی یعنی عمران خان کو ووٹ دیا کیونکہ انہوں نے انتخابات سے پہلے بلند بانگ دعوے کئے تھے صوبے اور مرکز میں حکومتیں بنانے کے بعد دملی کام کا آغاز ہو چکا ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی پر سرمایہ داروں ، جاگیر داروں وڈیروں نے قبضہ کر لیا ہے عمران خان پالیسیاں تبدیل کر رہے ہیں لیکن وہ لوگ اب راستے میں رکاوٹ ہونگے جبکہ عمران خان کے تیور بھی بدل چکے ہیں کل جن لوگوں کیوجہ سے انہوں نے پارٹی کے جھنڈے بنائے پارٹی کو منظم کیا اور گھر گھر عمران خان کا پیغام پہنچا اج وہ لوگ گوشہ نشین ہو چکے ہیں وہ اگر کوئی بات پارٹی کے مفاد میں کرتے ہیں تو ان کیلئے کوئی بھی تیار نہیں بلکہ ان لوگوں کو راستے کا کانٹا سمجھا جا رہا ہے کل جب ایک بڑے جلسہ عام میں حضرت رحمان ماما کا ماتھا چھوما کر بر ملا کہہ رہے تھے کہ آج سے تمام سوات کے نہیں پورے پاکستان کے ماما ہو وہ باتیں اب عمران خان بھول چکے ہیں اب عمران خان کو یہ بھی شاید یاد نہیں کہ سوات سے پارٹی کا آغاز ہوا تھا اور سوات میں پارٹی کے جھنڈے اور عمران خان کی آواز حضرت رحمان ماما ، شیر افگن کاکا ، علی خان ، حاجی عبدالرحیم ، نیک محمد خان سخاکوٹ ، قاسم سرحدی ، امیر الامان خان بونیری ، اعجاز خان اوچ اور دیگر جن میں حنیف خان ایڈوکیٹ ، انجینئر شوکت حیات خان ، سعید خان ڈھیرئ ، خالد خان ، لیاقت خان ڈاکٹر اور دیگر نے بلند کیا تھا ضرورت اس امر کی ہے کہ بائیس سالہ تاریخ کو مد نظر رکھ کر اور دیرینہ کارکنوں کی کوششوں قربانیوں کو سامنے رکھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور ان کے نصف صدی پرمحیط سیاسی تجربے سے فائدہ اُٹھایا جائے تاکہ پی ٹی آئی کی شہرت اور بلندی کو دوام ملے ۔
2,966 total views, 2 views today