تحریر : صلاح الدین یوسفزئ
خیبر پختونخوا میں ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت قائم ہونے کے بعد صوبے کے باسی اس بات کے متمنی تھے کہ گزشتہ پانچ سال میں کی گئی اصلاحات کو مزید بہتر بنایا جائے گا اداروں کی کارکردگی کومزید بہتر بنایا جائے گا لیکن بد قسمتی سے نئے پاکستان میں سٹیٹیسکو والی صورتحال بدستور برقرار ہے جس تبدیلی کو عوام کی خواہش تھی وہاں دلی ہنوز بدستور دوزاست والا معاملہ ہے سیدو شریف ٹیچنگ ہسپتال کی نئی بلڈنگ بدستور کھلنے کی منتظر ہے اس نئی بلڈنگ کے کھلنے سے درجنوں نئے ڈاکٹرز بھرتی کئے جا سکتے ہیں اس طرح سے درجنوں بیروزگار نوجوانوں کو اسپتال میں ملازمتیں مل سکتی ہیں پیرامیڈیکل سٹاف بھی بھرتی کیا جا سکتا ہے اور سب سے بڑھ کریہ مریضوں کو بہتر طبی سہولتیں مل سکتی ہیں لیکن اس کو کھلوانے پر تاریخ پہ تاریخ دی جا رہی ہے واپڈا نے تھری فیز لائن اسپتال تک پہنچا دی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ نئی بلڈنگ کے اندر کی جانے والی بجلی کی فٹنگ سے واپڈا مطمئن نہیں اور انکا کہنا ہے کہ اگر نئی تھری فیز لائن سے اگر نئی بلڈنگ کی بجلی سٹارٹ کر دی گئی تو پورا سسٹم جل سکتا ہے اس حوالے سے ایکسیئن واپڈا اپنی رپورٹ سی اینڈ ڈبلیو محکمے کو دے چکا ہے لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے اسپتال میں ایم آر آئی مشین کئی مہینوں سے خراب ہے کہا جاتا ہے کہ مشین میں کوئی پرزہ خراب ہے لیکن اسے ٹھیک نہیں کیا جا رہا ہے
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ ایم آر آئی مشین ہسپتال میں آرگنائزیشن سے انسٹال کرائی گئی تھی ان سے کوئی معاہدہ تو ہو گا تو یہ کلیم کیوں نہیں کیا جا تا اور اس کو ٹھیک نہیں کرایا جاتا لیکن نئے پاکستان میں بھی پرانے والے پاکستان کی طرح رات گزارو مہم جاری ہیں ، میڈیسن کیلئے صوبائی حکومت نے پیسے تو منظور کرائے ہیں جو کہ خوش آئند ہے لیکن میڈیکل لیبارٹری میں ذرائع کے مطابق صرف 3 ٹیسٹ کئے جاتے ہیں جس میں HBC ، HCV اور URINE کے ٹیسٹ شامل ہیں باقی ٹیسٹ کیلئے کٹس دستیاب نہیں اس طرح ڈینٹل بلاک میں آنے والے مریضوں کو HCV کے ٹیسٹ کیلئے 180 روپے دینے پڑتے ہیں اسی ٹیسٹ کے بغیر ڈینٹل میں کام نہیں کیاجاتا غریب آدمی کیلئے یہ رقم بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ پرائیویٹ فیس کی استطاعت نہ رکھنے پر سرکاری اسپتال کا رُخ کرتے ہیں لیکن انہیں معائنہ کیلئے 200 روپے کے ٹیسٹ کرانے پڑتے ہیں اسی میں سے صرف 40 فیصد روپے اسپتال میں جاتے ہیں 25 فیصد حصہ پیتھالوجسٹ کچھ فیصد ڈی ایم ایس اور کچھ فیصد ایم ایس کو ملتا ہے اگر ہیلتھ سیکرٹری ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت اسی ٹیسٹ کوفری کر دیں تو بہت سے غریب لوگوں کا بھلا ہو سکتا ہے لیکن عوام کو ریلیف دلانے میں کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے
اس طرح سے نچھلے درجے میں کرپشن کا سلسلہ بھی تھم نہیں پایا ہے کسی بھی ٹرانسفر کے سلسلے میں جب تک نذرانہ نہ دیا جائے فائل اپنی جگہ سے ہلتی بھی نہیں ہے ایجوکیشن اور محکمہ صحت اس حوالے سے بدستور بدنام ہے متعلقہ ایم پی ایز ، ایم این ایز کی سفارش کے ساتھ ساتھ نذرانے کے بغیر بھی کام نہیں ہوتا اس کی مثال اس طرح ہے کہ ٹرانسفر کے سلسلے میں دو تین لوگ درخواستیں دیتے ہیں تینوں ہی لوگ مقامی ایم پی اے اورایم این ایز سے سفارش لیکر آ جاتے ہیں پھر کام اس بندے کا ہو جاتا ہے جو اندرون خانہ اپنی سیٹنگ کر لیتا ہے میرٹ تو بس نام کا رہ گیا ہے اس طرح پولیس میں اصلاحات کا ڈھنڈورا تو بہت پیٹھا جا تا ہے لیکن پولیس بدستور پرانی ڈگر پر چل رہی ہے پہلے سلام پھر کلام والا سلسلہ صرف پی ٹی آئی کی حکومت کے شروع میں ہی چلا تھا اسکے بعد یہ سلسلہ بند کر دیا گیا ہے کچھ علاقوں میں جو نوجوان منشیات کے دھندے میں ملوث تھے وہ دھندے سے توبہ کر چکے ہیں لیکن انہیں اب بھی تنگ کیا جاتا ہے ان کے خلاف فرضی کیس بھی بنائے جاتے ہیں اس حوالے سے خوازہ خیلہ پولیس کافی بد نام ہو چکی ہے ۔ بہتر حال ہمیں اب بھی تبدیلی کا انتظار ہے اور اُمید ہے کہ تبدیلی آئیگی کیونکہ عوام اب مزید سٹیٹیسکو کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں ہے ۔
1,781 total views, 2 views today