تحریر : غفور خان عادل
ٹریفک کا بہترین نظام ایک بہترین معاشرتی سسٹم کی عکاسی کرتا ہے اور جہاں قانون سب کیلئے برابر ہو تو وہاں ٹریفک قوانین توڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پورے نظام میں امیر اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہو تو پھر ٹریفک قانون کے رکھوانے بااثر لوگوں کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں بڑے بڑے لوگوں اور قانون کے رکھوالوں کے ہاتھوں قانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے دیکھنے میں آیا ہے اور خصوصاً ٹریفک کا قانون کا عام لوگ تو مکمل طور پر احترام کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو خود کو قانون سے مبرا اور بالاتر سمجھتے ہیں وہ نہ کوئی اشارے کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ٹریفک جام کے موقع پر ٹریفک پولیس کے اشارے کا کوئی انتظار کرتا ہے بلکہ وہ دن کی روشنی میں لوگوں کی موجودگی میں ٹریفک قانون توڑتے ہوئے اپنے لئے راستہ بناتے ہیں جبکہ ٹریفک پولیس ان کو سلوٹ کرتے رخصت کرتے ہیں قارئین کرام کی توجہ سوات میں ٹریفک کے بد ترین نظام کی طرف مبذول کراتے ہیں سوات میں ٹریفک کا نظام صرف مال کماؤ تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ٹریفک کا نظام درست کرنے والوں کی ڈیوٹی اب صرف زیادہ سے زیادہ جرمانے لگانے پر مرکوز ہو چکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سوات سے ماہانہ اگر ایک کروڑروپے سے زائد رقم ٹریفک جرمانوں کی مد میں پشاور بھیجی جاتی ہے تو ان جرمانوں میں ٹریفک والوں کو لاکھوں روپے ماہانہ کمیشن ملتا ہے زیادہ جرمانہ لگاؤ اور زیادہ کمیشن حاصل کرنے کا فارمولہ ٹریفک پولیس نے اپناتے ہوئے سوات کو جرمانہ کی مد میں پشاور سے بھی آگے لے جایا گیا ہے
سوات میں ٹریفک کا کوئی پلان نہیں اور ٹریفک پلان ترتیب نہ دینے کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا ہے اور اس صورتحال کے باعث ٹریفک جام روز کا معمول بن گیا ہے اور لوگوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑتا ہے سوات کے مرکزی شہر مینگورہ اور گرد و نواح میں ٹریفک پلان ترتیب نہ دینے کیوجہ سے ٹریفک مسئلہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے اور تادم تحریر ٹریفک کا مسئلہ حل نہ ہو سکا ٹریفک اہلکاروں کو اختیارات اور وسائل کی فراہمی کے باوجود معاملہ صرف وردیوں کے بدلنے کی حد تک رہا ہے اور گاڑیوں کی قطاریں لگنے کا سلسلہ بھی تھم نہ سکا اور ٹریفک اہلکاروں کے بارے عوامی سطح پر شکایات بھی آ رہے ہیں شہریوں کا موقف ہے کہ ٹریفک اہلکار صرف گاڑیوں کو جرمانہ کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں اورجرمانے وصول کرنے کا معاملہ بھی لوکل ٹرانسپورٹ گاڑیوں تک محدود ہے با اثرا فراد کے گاڑیوں کوکالے شیشوں کے باوجود جرمانہ نہیں کیا جاتا ہے اور اس پر چشم پوشی کی جا رہی ہے عوامی سطح پر یہ شکایات بھی ہے کہ ٹریفک اہلکار گاڑیوں کو جرمانہ کرکے سڑک کے وسط میں گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے جب قانون کے رکھوالے خود ہی ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے تو عام آدمی سے قوانین پر عمل درآمد کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے ٹریفک سسٹم میں تبدیلی لانے اور ان کو درکار وسائل کی فراہمی سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ مینگورہ شہرمیں ٹریفک کے حوالے سے جو گھمیر مسائل موجود ہے وہ حل کئے جائیں گے لیکن لوگوں کی یہ توقعات پوری نہ ہو سکی مصروف چوکوں چوراہوں میں ماضی کی طرح اب بھی ٹریفک جام ہوتا ہے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ مین بازار کارپارکنگ میں تبدیل ہو گیا ہے جہاں پیدل جانا بھی مشکل ہے
اس کے علاوہ مینگورہ کے مختلف کاروبار کرنے والوں نے فٹ پاتھ پر قبضہ کر رکھا ہے جس کے باعث راہگیروں کا گزرنا تک محال ہو چکا ہے سوات میں ٹریفک پلان ترتیب نہ دینے کیوجہ سے ٹریفک کا گھمبیر مسئلہ عوام کیلئے درد سر بن چکا ہے گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام نے لوگوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کرر کھا ہے ادھر ڈی پی او سوات کی طرف سے ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے میں عدم دلچسپی نے رہی سہی کسر پور کر دی موجودہ ڈی پی او کی سوات تعینات سے قبل سابق ڈی پی او نے سوات میں ٹریفک کا سسٹم نہ صرف درست کیا تھا بلکہ وہ خود بھی سڑکوں پر نظر آتے رہے ان کی ذاتی دلچسپی کے باعث سوات میں مثالی ٹریفک کا نظام تھا ٹریفک پولیس کے جرمانوں کی بجائے ٹریفک کا نظام درست کرنے اور ٹریفک کے حوالے سے لوگوں میں شعور اُجاگر کرنے پر مرکوز رہی تھی اور انہوں نے ٹریفک پولیس میں پہلے سلام پھرکلام کو ایک مہم کے طور پراُجاگر کیا تھا جس کے دور رس نتائج لوگوں کے سامنے آ رہے تھے ان کے تبادلے کے بعد نہ صرف ٹریفک کا نظام در ہم برہم ہو کر رہ گیا ہے بلکہ ٹریفک پولیس میں ایسے لوگوں کو لایا گیا ہے جن کا رویہ بھی عوام کے ساتھ ہتھک آمیز ہے گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاریں اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا سوات کے ٹریفک پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے اگر ڈی پی او سوات خود کو اس مسئلے سے مبرا سمجھتے ہیں تو پھر یہ ٹھیک ہے لیکن اگر ٹریفک کا نظام درست کرنا اور ٹریفک پلان ترتیب دیناان کی ذمہ داری بنتی ہے تو پھر ان کو اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرنی چاہئے ویسے تو پورے ٹریفک پولیس کے بارے میںیہ موقف اختیار نہیں کیا جا سکتا کہ تمام کے تمام فرائض سے غافل ہے ان میں ایسے افراد بھی شامل ہے جو اپنے فرائض بطر یق احسن ادا کرتے ہیں ان میں ایک ٹی وی سکندر بھی شامل ہے جو لوگوں کے ساتھ انتہائی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں اور سکندر دیگر پولیس والوں کیلئے مثال ہے ان کی تقلیدکرکے ٹریفک پولیس عوام کے ساتھ اپنا رویہ درست کر سکتے ہیں
ڈی پی او سوات اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام مینگورہ شہر اور گردو نواح میں ٹریفک کے مسائل ابھی تک حل نہ ہونے اور ٹریفک اہلکاروں کی جانب سے ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں سے جرمانوں کی وصولی کو ڈیوٹی سمجھنے جیسے عوامی شکایات کا نوٹس لیکر اصلاح ا حوال پر توجہ دیں اور سوات و مینگورہ شہر کیلئے ایک ایسا ٹریفک پلان ترتیب یا جائے جس سے ٹریفک کی روانی ممکن ہو سکے ۔
1,804 total views, 2 views today