تحریر : محمد غنی یوسفزئ
ترقی کے اس دور میں لوگوں نے صفائی کی طرف توجہ دینا شروع کر دیا ہے گھروں ، ہوٹلوں ، حجروں اور ذاتی ملکیت کے تمام جگہوں کو صاف رکھا جا رہا ہے ہوٹلوں ، بیکری ، تندور ، گوداموں میں صفائی کے حوالے سے مہم چلائی جا رہی ہے اور صفائی نہ کرنے والوں کو جرمانہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس دوران ہماری کمزوری عیاں ہو رہی ہے کیونکہ ہم گلی کوچوں ، نالیوں ، پارکوں ، جنرل بس اسٹینڈ ، بازاروں کو صاف رکھنے میں کوتاہی برتے ہیں ہم گھروں اور دوسرے مقامات کی گندگی نکال کر گھروں کے سامنے گلی کوچوں میں بکھیر دیا جا رہا ہے ہم ذاتی عمارتوں اوردیگر بلڈنگز کی گندگی گلی کوچوں میں بکھیرتے ہیں ہم فروٹ کے چھلکوں کو اکٹھا کرکے روڈ اور گلیوں میں ڈال رہے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہے کہ گندگی پھیلانے سے معاشرے پر کتنا برا اثر پڑتا ہے مثال کے طور پر سوات ایک سیاحتی علاقہ ہے یہاں دُنیا بھر کے سیاح آتے ہیں خصوصاً گرمیوں کے موسم میںیہاں بہت رش ہوتا ہے سیاحتی مقامت کا تو الگ مزہ ہوتا ہے لیکن جگہ جگہ گندگی پھیلانے کیوجہ سے ہر طرف بدبو اور تعین ہوتا ہے جنرل بس اسٹینڈ سے چند فرلانگ فاصلے پر پل کے نیچے سال کے بارہ مہینے گند پڑا رہتا ہے جو کہ گرمیوں میں سخت بدبو پیدا کرتا ہے یہ ہم لوگوں کیوجہ سے ہے رات کے اندھیرے میں ہوٹل والے ، مرغ فروش ، سبزی فروش ، مچھلی فروش وغیرہ گند لیکر پل کے نیچے پھینک دیتے ہیں یہ گندگی پانی میں مل کر پانی کو گندہ کر دیتی ہے
جبکہ خوڑ کے اندر جگہ جگہ گندگی کے پہاڑ کھڑے ہو جاتے ہیں جن پر سیاحوں کی نظر پڑتی ہے جبکہ اس گندگی سے بدبو پھیلتی رہتی ہے اس کے باوجود کہ کالام تا چکدرہ لوگوں نے دریا کے کنارے ہوٹل ، ریسٹورنٹس بنا رکھے ہیں اور ان ہوٹلوں ریسٹورنٹس کا ساری گند دریائے سوات میں گرتا ہے جس کیوجہ سے صاف پانی جو کہ برف اور چشموں سے نکلتا ہے گندہ ہو جاتا ہے اس کے علاوہ ہماری فطرت ہے کہ کیلا کھاتے ہوئے یا کینو ، مالٹا وغیرہ کھاتے ہیں تو چھلکا روڈ پر پھینکتے ہیں اس طرح گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اگر الٹیاں شروع ہوتی ہے تو شاپنگ بیگ کے بجائے اسے روڈ پر تھوکتے ہیں اس طرح بلا تکلف سڑکوں ، گلی کوچوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں واسا والوں نے ہر گلی میں ڈسٹ بین رکھے ہوئے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گھروں کی ساری گندگی ڈسٹ بین میں ڈالی جائے لیکن ہم نے کبھی ڈسٹ بین استعمال نہیں کیا سارا گند باہر گلی کوچوں میں ڈالتے ہیں
ہمارے گلی کوچے ہر وقت گندگی سے بھرے رہتے ہیں یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان گلی کوچوں کو صاف ستھرا رکھے لیکن ہمیں معلوم نہیں ہے ورنہ ہماری آگاہی کیلئے کئی بار اخباروں ، ٹی وی چینلوں پر صفائی کے بارے میں بیانات شائع ہوتے ہیں اگر آپ دوسرے ممالک کا جائزہ لیں تو وہاں گندگی نام کی کوئی شے نہیں ہوتی اگر غلطی سے کوئی نسوار یا سگریٹ کاٹکڑا روڈ پر پھینکتا ہے تو فوری طور پر پکڑے جانے پر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے گھروں ، ہوٹلوں وغیرہ کی گندگی کو روڈز پر ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ غیر ممالک میں بسنے والے لوگ کپڑے ہفتہ بھر استعمال کرتے ہیں لیکن وہ میلے نہیں ہوتے اس طرح ہم پانی کو غیر ضروری طور پر استعمال کرتے ہیں یعنی ہمیں ضرورت ایک بالٹی پانی کا ہوتا ہے اور ہم پانچ بالٹیاں استعمال کرتے ہیں اس طرح ہم صاف پانی سے گاڑیاں سروس کرتے ہیں گھروں کے اندر کمرے ، برآمدے ، لان دھوتے ہیں ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ پانی قدرت کا انمول تحفہ ہے لیکن ہمیں بے دریغ استعمال کرتے ہیں اس طرح بجلی ، گیس کا بے دریغ استعمال اور بجلی گیس کی چوری مفت استعمال کی عادت بھی ہمارے رگوں میں رس بس چکی ہے اگر ہم ان معاملات اور صفائی وغیرہ کے حوالے سے حکومت ، میونسپل کمیٹی ، واسا ، محکمہ بجلی ، گیس سے تعاون کرتے تو ہمارے ملک میں صفائی کی حالت ابتر نہ ہوتی ہمارے ملک میں پانی کی کمی نہیں ہمارے ملک میں بجلی ، گیس کی لوڈ شیڈنگ نہ ہوتی ملک کے تمام ادارے ہمارے ادارے ہیں لیکن آج تک ہم نے ان اداروں کی ترقی کیلئے ایک قدم نہیں اُٹھایا اور نہ ہم نے ان اداروں سے تعاون کیا ہے ابھی حال ہی میں صوبے کے کونے کونے خصوصاً ضلع سوات میں پانی کی قلت کا سامنا ہے گھروں کے تمام کنویں جو کہ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت کھودے تھے سارے کے سارے سوکھ چکے ہیں اب ایک ہی ذریعہ ہے کہ کمیٹی اور واسا کے زیر سایہ چلنے والے ٹیوب ویل سے پانی حاصل کیا جائے.
اگر خدا نخواستہ یہ سلسلہ بھی منقطع ہوا تو پھر کیا ہو گا اس کے باوجود ہمیں ہوش نہیں ہے اور ہم پانی کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں سب سے بڑھ کر اپنے ارد گرد کو صاف رکھنے گندگی کو محفوظ کرنے کی ذمہ داریوں کا سامنا ہے میونسپل کمیٹی اور واسا والے بھر پو رکوششوں کے باوجود صفائی میں اسلئے ناکام ہے کہ ہم لوگ ان اداروں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ان کا ساتھ دینا اور صفائی کا خیال رکھنا ہماری قومی ذمہ داری ہے ہم اپنے پیارے ملک کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن جو ذمہ داری ہے اس کو قبول نہیں کرتے آئیں آج یہ عہد کریں کہ ہم بجلی چوری ، گیس چوری ، پانی چوری سے اجتناب کریں گے اور صفائی کا خاص خیال رکھیں گے اور عملہ صفائی سے تعاون کریں گے پانی کا بے دریغ استعمال نہیں کرینگے بلکہ ضائع ہونے والے پانی کے حوالے سے فوری شکایات درج کرائیں گے کیونکہ ہم اس ملک کے باسی ہے اور یہ ملک ہمارا ہے ۔
2,834 total views, 2 views today