تحریر ؛۔ شہزاد نوید
باچا خان جہانزیب کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب علم ہے اس کی عمر 19 سال ہے وہ سوات کے مشہور گاؤں اسلام پور کے رہنے والے ہیں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے ،جب سردیوں کی چھٹیاں ہوتی ہے تو وہ پڑھائی کیساتھ ساتھ شالیں بنانا شروع کردیتا ہے ، باچا خان صبح سویرے اٹھ کر اپنے گھر کے صحن میں بیٹھ کر شالیں تیار کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے ، وہ اپنے کام پر پوری طرح دھیان دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ چادریں بناتے ہوئے چھ سال ہوگئے ہیں، بچپن میں سکول کیساتھ ساتھ اپنے گھرمیں اپنے والدین کیساتھ ملکر چادریں ، شالیں بنانے کا کام سیکھا۔ دن میں سارے گھر والے مل کر 20 شالیں تیار کرتے ہیں جس میں اچھی اور کمزور کوالٹی کے شالیں شامل ہیں۔
باچاخان کہتے ہیں کہ اچھی کوالٹی شال کی قیمت دو ہزار سے تین ہزارروپے تک ہوتی ہے جبکہ کمزور کوالٹی شال کی قیمت چھ سو روپے سے اٹھ سو تک ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ کام باپ دادا کے وقت سے چلاارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گاؤں میں پاکستان کے مختلف علاقوں سمیت بیرونی ممالک سے بھی ہول سیل والے بھی آتے ہیں اور پرچون والے بھی۔
باچاخان کی طرح امتیاز بھی فرسٹ ائیر کے طالب علم ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی گاؤں میں شالیں فروخت کرنے کیلئے دوکان کھول رکھی ہے گاؤں سے شالیں خریدتابھی ہوں اور میرے ساتھ اپنے تین کا ریگر بھی کام کرتے ہیں جو دن میں 30 کے قریب شالیں تیار کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بچپن سے ہی میں نے یہ کام اپنے بڑوں کو کرتے دیکھا ہے جس کے بعد میری بھی خواہش ہوئی اور میں نے تعلیم کیساتھ ساتھ کاروبار شروع کردیا ، دو پہر ایک بجے تک میں کالج میں ہوتا ہوں اور اس کے بعد میں اپنی دکان پر جاتا ہوں ، جہاں پڑھائی کیساتھ ساتھ کاروباری سرگرمیوں میں بھی مشغول رہتاہوں۔
امتیاز نے کہا کہ شالوں کے علاوہ اون سے ہم مختلف قسم کے دیگر پہننے کے اشیاء بھی بناتے ہیں جس میں سواتی ٹانگے والالباس، اس میں ہم کرتے بھی بناتے ہیں،سوٹ ،پرس، پکول، شڑی اسی اون سے بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں اسلام پور کی اس صنعت کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں پسند کیا جاتا ہے۔ یہ سارا کام ہاتھ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان اشیاء کو بنانے میں سب سے زیادحصہ گھریلوں خواتین کا بھی ہے جو گھر بیٹھے کڑائی وغیرہ کا کام کرتے ہیں اور وہ یہ سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔
سوات کی اس گاؤں اسلام پورکے باسیوں کو اُون سے کپڑا،چادر اور پکول بنانے والوں کو ایک سما جی گروپ کی طورپر تسلیم کیا گیاہیں۔ سوات اسلامپور میں ہا تھ کے ذریعے بنائی گئی اُون کی اشیاء تما م صوبہ خیبر پختونخواہ مشہورہیں۔
گاؤں اسلام پور کے علاوہ ضلع سوات میں کشیدہ کا ری کا کام دستکاری کا ایک اور شعبہ ہے۔سوات کے اس صنعت کی تجارت سیا حت کے شعبہ میں بھی ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔مینگورہ شہر اور سوات کے سیاحتی علاقوں بحرین،مدین،چیل ،مرغزاراورکا لام میں مختلف اقسام کے دو سو پچاس سے ذیا دہ ہینڈی کرافٹس کی دکانیں موجو د ہیں ۔مینگورہ شہر کے مصروف ترین بازار نیو روڈ میں ایک شالیں فروخت کرنے والے تاجر شاہ اسد اللہ نے کہا کہ سوات کی شالیں، ٹوپیاں، بڑی چادریں ملک بھر میں اپنی اعلیٰ کوالٹی کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور ہیں، انہوں نے کہا کہ پشاور، کراچی، فیصل آباداور کوئٹہ تک سوات کی ان شالوں، چادروں اور ٹوپیوں کی تجارت کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب یہاں سیاح آتے ہیں تو وہ اپنے دوستوں کے لئے تحائف کے طور پر یہ دستکاری والا سامان لے کر جاتے ہیں۔
گاؤں سلام پور کے مشہور سماجی شخص حاضر گل کہتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے الگ کام کی وجہ سے مشہور اسلام پور کے گاؤں میں جب سیاح وارد ہوتے ہی یہاں کے انڈسٹری کو دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے کہ’’ یہاں پر ہنرمندوں اور محنت کشوں کی ایک الگ دنیا بستی ہے۔اس گاؤں میں گاہے بہ گاہے سینکڑوں سالوں سے قائم کڑیوں کا جال بچھا ہوا ہے ‘‘
انہوں نے کہا کہ ان کڑیوں میں رنگ برنگے مردانہ اور زنانہ گرم شالیں تیار کی جاتی ہے۔یہ خوش رنگ شالیں نہ صرف ملک بھر میں مشہور ہے بلکہ دیگر ممالک کو برآمد بھی کی جاتی ہے۔اسلام پورکی اُون سے بنی ہوئی اشیاء ملک کے مختلف شہر وں اور دیہا توں کے علاوہ جنوب مشر قی اشیاء کے ممالک کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔اور بڑی مقدار میں ذرمبادلہ حاصل کیا جاتاہے۔
انہوں نے کہا کہ وقت گزرنے کے سا تھ سا تھ ان ’’ہنر مندوں ‘‘ نے سہولیات کے فقدان کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت ان مصنوعات کو مزید وسعت دی اور ان کی معیار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے سرتوڑ کششیں کی،اور یوں یہ گاؤں اُون سے تیار ہونے والی مصنوعات کا ایک بہترین انڈسٹری کی صورت اخیتار کرگئی۔۔ محتاط اندازے کے مطابق اس گاؤں کی کل آبادی ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے، اور یہاں کی پوری آبادی کی آمدنی کا انحصار ا ’’ اُون‘‘ سے بنائے جانے والی مصنوعات پر ہے۔ایک اندزاے کے مطابق اسلام پور کے یہ محنت کش باسی 90لاکھ سے 1کڑور روپے کا سالانہ زردمبادلہ حاصل کرتے ہیں۔
حاضر گل کہتے ہیں کہ حکومتیں اس تاریخی اور صنعتی گاؤں کی فلاح اور اس کام کو بین الاقوامی مارکیٹ تک لے جانے کیلئے کچھ نہیں کررہی ۔پچھلے دور حکومت میں عوامی نیشنل پارٹی نے اس گاؤں کو انڈسٹری کا درجہ تھا ۔ وہ گاؤں سے دور اور ہٹ کر انڈسٹری لگانا چاہتے تھے جس کو گاؤں والے نے منظور نہیں کیا، گاؤں کے لوگ چاہتے تھے کہ انڈسٹری اسی گاؤں میں تعمیر ہونی چاہئے ، اس اختلاف میں حکومت کی مدت ختم ہوئی اور انڈسٹری کا خواب پورا نہ ہوسکا، حاضر گل کہتے ہیں کہ اس حکومت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ اسلام پورگاؤں کو انڈسٹری کادرجہ دیکر اس صنعت کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ان مصنوعات کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اب ’’یہاں کے ہنر ومند وں ‘‘ نے باہر سے درآمد شدہ عمدہ معیار کا اُ ون بھی استعمال کر نا شروع کردیا، جس کی بدولت ہاتھ سے تیار کی ہوئی ان مصنوعات کے معیار میں مزید بہتری آئی۔
امتیاز حکومتی اداروں مطمئن نظر نہیں اتے ، وہ کہتے ہیں کہ اون سے مختلف اشیاء بنانا ہما پیشہ ہے، حکومت کو چاہئے کہ ہمارے گاؤں میں انڈسٹری لگائیں۔تاکہ گرمیوں میں بھی ہماری یہ چادریں فروخت ہوسکیں جبکہ ان اشیاء کی دیگر ملکوں میں فروخت کرنے کیلئے ہمیں تربیت دی جائے تاکہ ہمارے ان اشیاء کی بیرونی ممالک میں فروخت ممکن ہو سکے،انہوں نے کہا کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دستکاری والی صنعت میں پوری دنیا میں لوہا منوانے کے باوجود کڑی مالکان حکومت کی عدم توجہ پر پریشان ہیں۔اور سہولیات کے فقدان کا رونا رو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جاں توڑ محنت کے باوجود انہیں اجرت بہت کم ملتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف حلقہ پی کے اکیاسی کے ممبر صوبائی اسمبلی عزیز اللہ گران سلام پور گاؤں کے ان شالوں اور صنعت کے حوالے کہتے ہیں کہ پچھلے حکومت میں جب یہاں بیرون ممالک کے سفیر سوات کا دورہ کرتے تھے تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ ان دہشت گردی کیساتھ ساتھ اس صنعت پر بھی بات کرتے اور اس کو اجاگر کرتے لیکن انہوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔
ایم پی اے عزیز اللہ گران کہتے ہیں کہ اسلامپور گاؤں کو انڈسٹری کا درجہ دینے کیلئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں بات کروں گا، ہماری حکومت اس طرح کے صنعت کو بھر پور توجہ دے گی۔انہوں نے کہا کہ اس صنعت کو مزید فروغ دینے کیلئے ہم کوشش کرینگے۔
1,838 total views, 1 views today