غلام فاروق
سوات میں جاری سیکورٹی فورسز کے آپریشن کا آہ و سسکیوں کے ساتھ 6 سال دو مہینوں سے زیادہ مکمل ، فوجی جوانوں سمیت ہر شعبہ زندگی سے
تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد شہید ، خودکش دھماکے ، رابطہ پل ، تعلیمی اداروں سمیت بی ایچ یوز سرکاری املاک مکمل طور پر تباہ ،ایشیاء کے سویٹزر لینڈ وادی سوات کے قدرتی خوبصورتی مکمل طور پر ختم ، جنرل پرویز مشرف کے غلط اور امریکن نواز پالیسیوں کی وجہ سے مختلف واقعات ڈمہ ڈولا اور جامعہ حفصہ کے بعد سوات میں حالات نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ۔سوات میں امن وامان کے بحالی میں تمام سویلین ادارے مکمل طور پر ناکام ہوگئے تھے ، مجبوراًاس وقت کے نگران حکومت نے باقاعدہ طور پر سوات میں 24نومبر 2007کو آپریشن راہ حق کے نام سے شدت پسندوں کیخلاف آپریشن شروع کیا ۔
سوات آپریشن کے پہلے انچارج میجر جنرل ناصرخان جنجوعہ نے دو مہینوں کے اندر اندر پورے ضلع سوات کو دہشتگردوں سے خالی کردیا ۔ مگر سوات کے بد قسمت عوام کے بد قسمتی اس وقت شروع ہوگئی جب ملک میں 2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت آئی اور انہوں نے دہشتگردوں سے معاہدے کئے جسکی نتیجے میں دہشتگرد مضبوط سے مضبوط تر ہوگئے ۔6 سال دومہینے آپریشن کے مکمل ہونے کے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے سوات میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں ۔
جسکی وجہ سے عام لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ جبر ظلم اور ناانصافی کے اس فرسودہ نظام کی وجہ سے حالات یہاں تک پہنچ گئے ۔افسانوی شہرت یافتہ ملالہ پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا ،واقعات کے مطابق سوات میں جاری سیکورٹی فورسز کے آپریشن راہ حق کو آج 6 سال دو مہینے پورے ہوگئے۔ اس 6 سال دو مہینے میں اب تک 555آرمی کے جوان ، آفیسرز شہید ہوچکے ہیں جبکہ دو ہزار سے زائد جوان زخمی ہوگئے ہیں جو جسم کے اہم اہم اعضاء سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے محروم ہوگئے ہیں ۔ دو سو بیس کے قریب پولیس اہلکار و آفیسر شہید ہوگئے ہیں ، 325سے زائد آفیسر اور جوان زخمی ہوچکے ہیں ۔ 7000سے زائد بے گناہ شہری شہید جبکہ 12000سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں ۔ جس میں بچے ، بوڑھے ، جوان اور خواتین شامل ہیں ۔
آپریشن کے دوران چار صحافی شہید بھی ہوچکے ہیں جن میں موسیٰ خانخیل ، قاری شعیب ، عبدالعزیز ،سیراج الدین شامل ہیں ،سوات کے سینئر صحافی حضرت بلال بم دھماکے میں شدید زخمی ہوگئے تھے، جبکہ صحافی غلام فاروق کے بڑے بھائی غلام حسین بھی حاجی بابا سکول بم دھماکے میں شہید ہوگئے تھے ، اسی طرح ایکسپریس سوات کے نمائندہ شیرین زاہ کے بڑی بہن بھی سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن کر خالق حقیقی سے مل گئی ، 37خودکش دھماکے ہوئے ہیں ۔ ریموٹ کنٹرول دھماکے 414کے قریب ہوگئے ہیں ۔403 میل فیمیل سکولوں کو تباہ کردیا گیا ہے ۔ 100سے زائد ویڈیو سنٹرز ، 60کے قریب حجام کے دکانوں ،80رابطہ پل ، 30بی ایچ یوز ، بجلی کا گریڈسٹیشن جسکی مالیت 100کروڑ روپے ہیں ، سوئی گیس پلانٹ ، 22پولیس چوکیاں ، 3بڑے پولیس سٹیشن ، قائم مقام آئی ایس پی آر کا دفتر بھی تباہ کردیا گیا ,۔سیکورٹی فورسز کے زیر حراست 300 سے زائد شدت پسند طبی موت مر گئے ہیں،جبکہ230سے زائد اہم شخصیات کو ٹارگٹ کلنگ میں موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ۔5000سے زیادہ عسکریت پسندوں کو مختلف کاروائیوں میں مارا گیا ہے 6000ہزار سے زائد عسکریت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔جبکہ دہشتگردوں نے ایک اہم رقاصہ شبانہ کو بھی انتہائی بے دردی سے قتل کرکے مینگورہ کے گرین چوک میں لاش رکھ دی تھی ۔ 2وکلاء محمد حسین ایڈوکیٹ ، صاحبزادہ ایڈوکیٹ بھی قتل کردےئے گئے ہیں ۔ بیس ہزار سے زائد مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں ۔
سوات میں حالات اس وقت خراب ہوگئے جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکن نواز اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ڈمہ ڈولا ،جامعہ حفصہ واقعات پر ملک بھر میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا تو اسی طرح سوات میں مشرف کے اقدامات کیخلاف عام لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا اس کا فائدہ ان عسکریت پسندوں نے خوب اٹھالیا اور پورے ضلع سوات میں حکومتی رٹ ختم کرکے اپنی عملداری قائم کردی، تمام سویلین ادارے ایف سی اور پولیس مکمل طور پر ناکام ہوگئے تھے آئے روز دھماکے معمول بن گئے تھے ۔ تواس وقت کے نگران حکومت نے سوات میں آپریشن کا باقاعدہ اعلان کرکے 24نومبر 2007کو سوات میں باقاعدہ آپریشن راہ حق کے نام سے آپریشن شروع کیا ۔ اس وقت کے آپریشن کے انچارج میجر جنرل ناصرخان جنجوعہ نے عسکریانہ صلاحیتوں سے اور انتہائی کم فوجی جوانوں تقریباً جسکی تعداد 1000اور 1200کے درمیان تھی پورے ضلع سوات کو دہشتگردوں سے دو مہینے کے اندر اندر مکمل صاف کردیا اور کامیاب آپریشن کے بعد ہزاروں کے تعداد میں عسکریت پسند اسلحہ سمیت سیکورٹی فورسز کے سامنے سرنڈر ہوگئے اور بہت سے دہشتگردوں کو سیکورٹی فورسز نے گرفتار کرلیا ۔ اور اس آپریشن کے کامیابی پر ضلع بھر کے پر امن شہریوں نے سکھ کا سانس لیا ۔اور ملک میں عام انتخابات کااعلان کیا گیا، سوات کے مظلوم عوام کے بد قسمتی اس وقت شرو ع ہوگئی جب ملک میں عام انتخابات فروری2008ہوئے اور اس کے نتیجے میں مرکزمیں پیپلز پارٹی اور صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے حکومت آئی اور انہوں نے پہلے مئی 2008میں دہشتگردوں کیساتھ معاہدے کئے اور اس معاہدے کے نتیجے میں سوات بھر میں دہشتگرد مضبوط سے مضبوط تر ہوگئے اوربہت سے دہشتگردوں کورہا کردیا گیا،
جبکہ دوسرے طرف اس معاہدے کے باوجود دہشتگردوں نے سیکورٹی فورسز ،پولیس ،ایف سی اور دوسرے سرکاری اہلکاروں اوراملاک پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے ۔ اور شدت پسند پورے ضلع سوات میں مضبوط ہوگئے ۔ اور اپنی عملداری قائم کرنے کیلئے عسکریت پسندوں نے متوازی حکومت کے تمام شعبے قائم کرلی اور حکمرانوں کے غلط معاہدے کے نتیجے میں سوات میں حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ ملک کے اہم ادارے بھی عسکریت پسندوں کے اجازت کے بغیر راشن ، گھومنے ، پھرنے کی اجازت دہشتگردوں سے لیتے تھے ۔ اس دوران عملاً حکومتی عملداری سوات میں ختم ہوچکی تھی اور شدت پسندوں نے ملاکنڈ ڈویژن کے دوسرے اضلاع میں اپنی سرگرمیاں شروع کردی اور حالات خراب سے خراب تر ہوگئے ۔ اس کے باوجود حکومت نے دوبارہ مارچ 2009میں دہشتگردوں سے معاہدہ کرلیا جس سے دہشتگرد اور بھی مضبوط ہوگئے ۔ مختلف اجلاسوں اور دہشتگردوں کے ملاکنڈ ڈویژن کے دوسرے اضلاع بونیر ، دیر لوئر،دیر اپر، شانگلہ، ملاکنڈ ایجنسی اور صوبوں کے دوسرے اضلاع میں کاروائی میں تیزی آنے لگی ۔ یہاں تک کہ دہشتگردوں نے بجلی کے گریڈ سٹیشن رحیم آباد اور مینگورہ شہر کو سپلائی دینے والے سوئی گیس کے پلانٹ کو بھی مکمل طور پر تباہ کردیا جسکی وجہ سے چالیس دنوں سے زائد گیس اور بجلی کی سپلائی بند تھی جسکی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا تھا۔جب کاروائیاں تیز ہوگئی تو صوبائی حکومت نے اور سوات سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران نے آرمی کو آپریشن کرنے کی اجازت دیدی ۔ صوبائی حکومت اور سوات کے منتخب ممبران کے اجازت سے شروع ہونیوالے دوسرا آپریشن راہ راست 5مئی 2009کو شروع ہونے کا اعلان کردیا گیا اور اعلان کیساتھ ہی سوات کے عوام کوسرکاری کے طرف سے حکم دیا گیا کہ سوات کو تین دن میں خالی کردیں سوات سے تقریباً 25لاکھ سے زائد افراد نے نقل مکانی کی اور نقل مکانی کے دوران سوات کے مظلوم عوام کے مصیبتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور نقل مکانی کے دوران پچاس سے ساٹھ کلومیٹر کا راستہ بچوں، بوڑہوں ، خواتین ، جوانوں نے پیدل طے کیا ۔ نقل مکانی کے دوران بہت سے افراد گولیوں کی زد میں آکرراستے میں ہی شہید ہوگئے ۔ بہت سے افراد بے گھر ہوگئے ۔ نقل مکانی کے دوران حکومت کے طرف سے جو اعلانات کئے گئے وہ صرف کاغذوں اور ٹی وی کے نشریات تک محدود رہے ،حکومتی اقدامات مکمل طور پر ناکام ہوچکے تھے ۔ مگر سوات کے مظلوم عوام کو قربانی کا صلہ یہ مل گیا کہ سوات میں عسکریت پسندوں کیخلاف آپریشن میں سیکورٹی فورسز کو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی مگر سوات کے مصیبت زدہ عوام اپنے آپکو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں کہ کب تک عسکریت پسندوں کے ٹاپ لیڈر شپ قانون کی گرفت میں آکران کو سخت سزائیں دی جائیگی ۔ تین مہینے نقل مکانی کرنیوالے افراد نے یوٹیلٹی بل جمع کئے اگرچہ سابقہ وزیراعظم نے اعلان کیا تھا مگر انکا اعلان صرف اور صرف کاغذوں تک محدود رہا ۔ جبکہ آپریشن راہ حق کے دوران 2سال سے زائد عرصہ رات کی کرفیو میں گزرا اور کبھی تو ایک ایک ہفتے تک کرفیو نافذ رہی ۔ سوات میں غیر یقینی صورتحال کے وجہ سے سیاحت ، ہوٹل انڈسٹری سمیت دوسرے کارخانے جس میں ہزاروں مزدور کام کرتے تھے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ، ۔ جبکہ آپریشن کے دوران سوات کے منتخب ممبران قومی و صوبائی اسمبلی ، ضلع ناظم اعلیٰ اور اہم اہم شخصیات ہمیشہ کیلئے سوات کو چھوڑ کر پشاور اور اسلام آباد میں منتقل ہوچکے تھے ۔ اور مصیبت کے اس اہم گھڑی میں سوات کے مظلوم عوام کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا اور سوات کے مظلوم عوام کو انتہائی مسائل درپیش تھے ۔ جن کو حل کرنے کیلئے انہوں نے سوات آنا گوارہ نہیں کیا اور سوات کے لوگوں کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ۔ دوسرے طرف سوات میں سیکورٹی فورسز کے آپریشن راہ راست جو 5مئی 2009کو شروع ہوا تھا ۔ فورسز کیساتھ عوام نے بے پناہ قربانیاں دیکر آپریشن کو کامیاب کردیا سیکورٹی فورسز کے اس کامیاب آپریشن کے بدولت سوات میں امن بحال ہوا ۔ اور دہشتگردوں کی کمرتوڑدی گئی ان دہشتگردوں کو یا تو انکو مار دیا گیا یا انکو گرفتار کرلیا گیا ۔ اس دوران دہشتگردوں کیخلاف 884مقدمات درج ہوئے ہیں جس میں 28کے قریب دہشتگردوں پر درج کئے گئے ہیں جس میں 600قریب دہشتگرد گرفتار ہوچکے ہیں آپریشن کے دوران 8میجر جنرلز بھی تبدیل کئے گئے ہیں ۔ سوات میں دو سال تقریباً انتہائی پر امن انداز میں گزر گئے مگر اسکے باوجود مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ اہم سکول ، اہم عمارتیں ویسے کے ویسے پڑے ہیں ۔ جسکی وجہ سے سوات کے مظلوم عوام میں بے چینی پھیلی ہوئی ہیں ۔ آپریشن کے تباہی تو تھی مگر جب سیلاب کے تباہ کاریاں آگئے یہ تو سوات کے عوام خوش قسمتی تھی کہ یہاں پر پاک آرمی جیسے ادارے کے جوان موجود تھے اور انہوں نے دن رات ایک کرکے عارضی بنیادوں پر رابطہ پل اور دوسرے تعمیراتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ جبکہ موجودہ سابقہ مرکزی اور صوبائی کے انتظار کرتے تو جس طرح دوسرے سالوں سے پڑے ہوئے تھے اب بھی پڑے ہوئے ہوتے ۔ جبکہ اس دوران اس دوران سوات میں افسانوی شہرت یافتہ ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس کو بڑے پیمانے پر میڈیا نے کوریج دی ، دنیا بھرمیں اس کے دن منایا گیا مگر سوات میں ملالہ یوسفزئی دن کسی بھی سرکاری یا نیم سرکاری طور پر نہیں منائی گئی عام لوگ یہی پوچھتے ہیں کہ ان کو اتنی شہرت کیوں دی گئی،ملالہ یوسفزئی پر حملہ کے بعد سوات بھر میں سیکورٹی سخت کردی گئی جو چیکنگ اور چیک پوسٹیں ختم کردی گئیں تھی وہ دوبارہ بنائی گئی اور پانچ منٹ کا فاصلہ اب تین گھنٹوں میں طے ہو رہاہے،اس واقعہ کے بعد عام شہریوں کے مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے جبکہ سرچ اپریشن کے دوران بے گناہ لوگوں کو بھی بڑی پیمانے پر گرفتار کیا گیادوسری سوات میں غیر یقینی صورتحال کے دوران مٹہ کے علاقہ شور کے رہائشی کبیر خان نے حقیقت پر مبنی دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جس میں وہ خود بھی خاندانی افراد سے محروم ہوگئے اور دہشت گردوں کو بھاری جانی نقصان دے کر ان کے غرور کو خاک میں ملادیا، مگر ان کو کہی سے بھی پذیرائی نہیں ملی، جبکہ مینگورہ بازار کے صدر عبدالرحیم سوات سے نہیں نکلے تھے، اور غیر یقینی صورتحال کے دوران بھر پور انداز میں اپنے ہی گھر میں رہا ، دوسرے طرف جن کو بڑے بڑے پہروں کے اندر تحفظ حاصل تھی ان کو اعزازات سے نوازا گیا، جبکہ سوات میں ظلم وجبر اور نااانصافی کے اس نظام کی وجہ سے اتنا بڑاخون خرابا ہوا، جس پر بھی کسی نے بھی آج تک غور کرنے کی زحمت نہیں کی ہے،کہ ایک مثالی امن کے علاقہ میں اتنی بڑی مزاحمت کیسی ہوئی، سوات بھر میں ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہونے لگا ہے معروف سماجی شخصیت اور خداترس انسان افضل خان جیسے شخصیت اور امن کمیٹیوں کے ممبران اس کے زد میں ارہے ہیں، کامیاب اپریشن کے باوجود عام شہری اپنے اپ کو غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں، ہر سطح پر سوات کے مظلوم عوام سے سوتھیلی ماں جیسا سلوک رکھا جارہا ہے، ملک کے دوسرے حصوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانہ دس سے بارہ گھنٹے تھا تو سوات میں عوام کی قربانی کی وجہ سے انعام کے طورپر اکیس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی شکل میں دیا گیا، سیکورٹی فورسز اور عوام کے بے پناہ جان ومال کی قربانیوں کے بعد سوات میں امن بحال ہو چکا ہے ، لیکن جن اداروں کی ناکامی کی وجہ سے دہشت گردوں نے فائدہ اٹھا کر سوات میں اپنی مکمل عملداری قائم کرلی تھی ، اب بھی وہ تمام ادارے اپنے فرائض صحیح اور درست طریقے سے سرانجام نہیں دے رہے ہیں، جبکہ تمام اداروں کے اہلکاروں نے رشوت کا بازار گرم کررکھاہے، اتنی بڑی تباہی اور بربادی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے، اگر سوات میں حکومتی اداروں نے اب بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کی اور اسی طرح انفرادی سوچ رکھ لیتی ہے تو 1985 ،1994 اور 2007 کے حالات ہمارے سامنے ہیں، اور انے والے حالات پھر اس سے بھی خوفناک اور خطرناک ہونگے، لہذا ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تاکہ شہریوں کو ان کے ثمرات مل سکیں۔
جبکہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سوات کالعدم تحریک طالبان کے امیر مولانا فضل اللہ سمیت افغانستان کے صوبہ کنٹر اور نورستان میں موجود ہیں، جو یہاں ہونے والے ہر دہشتگردی کی کارروائی کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں،جبکہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سوات کے خودساختہ قبائلی تحصیل کبل اور مٹہ سے ہزاروں کے تعداد میں خاندانوں سمیت افغانستان منتقل ہوچکے ہیں جہاں پر ان کے ایک دوسرے کیساتھ رشتے ہوگئے ہیں، مستقبل کر قریب ان کے نتائج بھی انتہائی خطر ناک ہونگے جس کو روکنا بھی بڑا مشکل اور خطر ناک ہوگا ، سوات کے مظلوم عوام ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ پہلے متحدہ مجلس عمل پھر عوامی نیشنل پارٹی اور اب 2013 کے الیکشن میں تبدیلی کا نعرہ لگانے والے عمران خان کے پارٹی کے نمائندوں کو بھاری اکثریت سے منتخب کردیا مگر کافی وقت گزرنے کے باوجود عمران خان کے ممبران منتخب ہوکر الیکشن کے بعد سکرین سے مکمل طور پر اوٹ ہے ، ایک ممبر قومی اسمبلی مراد سعید کو ٹی وی ٹالک شو کے علاوہ نظر نہیں ارہا ہے ، سیلاب اور ڈینگی کے وباء میں لوگوں نے ان کی خلاف بھر پور مظاہرے بھی کی ،مگر تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے کان اور انکھیں بند کردئیے تھے ، سابقہ ممبران قومی و صوبائی اسمبلی دہشتگردوں کے ڈر سے سوات چھوڑدیا تھا جبکہ اب سوات میں مثالی امن ہونے کے باوجود سوات سے تعلق رکھنے والے چار قومی اور نو صوبائی ممبران عوام کے مشکلات کے وقت میں نظر نہیں ارہے ہیں ، سوات میں غیر یقینی اور دہشتگردی کے دوران ہونے والے تباہی کو دوبارہ تعمیر نو نہ ہونے کے برابر ہے جس کے وجہ سے عام شہریوں میں بھی بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور سوات کے مظلوم عوام منتخب نمائندوں اور بیوروکریسی کی ناکامیوں کودیکھتے ہوئے کسی مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ کب کوئی مسیحا سوات میں آکر سوات کے مظلوم عوام کی مسائل کو ختم کرکے دوبارہ مثالی امن قائم کریگا کیونکہ سوات کے مظلوم عوام کے بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب ریاست سوات کا ادغام پاکستان میں ہوا ، مسائل حل ہونے کے بجائے اس میں مزید پیجیدگیا ں اور مشکلات پیدا کئے ، جس طرح ملاکنڈ ڈویژن اور خصوصاًسوات میں عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت نے شرعی نظام عدل 2009 کے نام سے برائے نام ریگولیشن قائم کرلیا اس ریگولیشن میں عوام کو مراعات دینے کے بجائے سابقہ مراعات چینی گئی اور 95 سے زائد نئے قوانین نافذ کردی ، ان قوانین کا شریعت سے دور کا واسطہ نہیں بلکہ صوبائی قبائلی علاقہ (پاٹا)کے حیثیت ختم کرنے کیلئے یہ ریگولیشن قائم کردی ہے ، اس مزاق کی وجہ سے دین اسلام اور شہریت سے محبت کرنے والے شہریوں میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے جو ایک انتہائی خطر ناک عمل ہے اگر اب بھی حکومت افیسر شاہی نے سنجیدگی سے بھی اس اہم مسئلے پر توجہ نہیں دی تو اس سے بھی کسی بھی وقت امن وامان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ،لہٰذا ملاکنڈ ڈویژن اور خصوصاً سوات کے عوام کیلئے یہاں کے روسم و رواج اور یہاں کو معروضی حالات کے پیش نظر پاٹا ریگولیشن جیسے جرگہ سسٹم رائج کرنے کیلئے اقدامات کی جائے تاکہ عام شہریوں کو ان کے دہلیز پر انصاف مل سکے کیونکہ انصاف کیلئے ترستے عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں،
2,106 total views, 2 views today