شائد مذاکرات پاکستان کو وراثت میں ملے ہیں۔ کیوں کہ قیا م پاکستان سے آج تک ہم کسی نہ کسی سے مذاکرات کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی انڈیا، تو کبھی امریکہ سے مذاکرات کی آوازآرہی ہے۔ کبھی آئی ایم ایف سے، تو کبھی ورلڈ بنک سے قرضے کے لیے۔ مذاکرات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے مگر ہمارے حکم ران ان مذاکرات کومثبت سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ انڈیا سے کشمیر کے معاملات پر کتنے مذاکرات ہوئے؟ کیا ان میں پاکستان کی ایک بھی سنی گئی؟ آخر کسی بھی نتیجہ کے بغیر بات چیت ختم کی جاتی اور آخر میں بات چیت جاری رکھنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح آئی ایم ایف اور ورلڈبنک سے مذاکرات کے بعد اُن ہی کی بات مان لی جاتی ہے، تو پھر ایسے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے؟ بس ان کا حکم سرآنکھوں پر رکھتے رہیں۔ اب طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا گیا، مگر ان مذاکرات کا بھی وہی حشر ہوا جس کی امید تھی، جو قیام پاکستان سے آج تک ہونے والے مذاکرات میں ہوتاچلا آرہا ہے۔
’’لوگ تو پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ کوئی اندر خانے گیم چل رہی ہے۔‘‘ ’’نہیں حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کریں گے۔‘‘ ’’اوہ، نہیں یہ حکومت طالبان کی حمایت یافتہ ہے۔ حکومت طالبان سے خوف زدہ ہے۔ طالبان اور حکومت ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘‘ ’’یہ مذاکرات ایک ٹوپی ڈرامہ ہے۔‘‘یہ وہ جملے ہیں، جو ہم اکثرمیڈیا پرسنتے آ رہے ہیں۔ اس سے پہلے اپنے کالم ’’مذاکرات میں کالی رات نہ آئے‘‘ میں واضح الفاظ میں لکھ چکا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ کیوں کہ جب سے حکومت نے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا، اس دن سے آج تک ہمیں ایسی کوئی مثبت خبر نہیں ملی، جس سے ایسا محسوس ہو کہ یہ مذاکرات سنجیدہ نوعیت کے ہو رہے ہیں۔
پہلے دن سے ہی طالبان کمیٹی اور حکومتی کمیٹی کی اٹھکیلیاں شروع ہوگئی تھیں۔ کبھی ملا قات ہورہی ہے، تو کبھی نہیں ہو رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذاکرات میںیہ دونوں کمیٹیاں سنجیدہ تھیں، تو پھران کو اپنے بیانات میڈیا کی زینت بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر جو کچھ ہوا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک طرف مذاکرات کا ڈرامہ ہو رہا تھا، تو دوسری طرف دہشت گردی کی انتہا ہے۔ اب تو فوجی جوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے۔ خودکش حملے کرنے والے سارے ملک میں دندناتے پھررہے ہیں۔
آخروہ دن آگیا، جس کا انتظار ان لوگوں کو تھا جن کا ذکر میں اوپر کرچکا ہوں کہ یہ مذاکرات ایک ٹوپی ڈرامہ ہیں۔ وزیر دفاع کے بیان نے ساری الجھی گتھیاں سلجھا دیں، جب انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی اجازت سے آرمی نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا ہے۔ یہ خبر ہمارے لیے بریکنگ نیوز تھی، مگر ہوسکتا ہے حکومتی لوگوں کے لیے نہ ہو۔
بہ ہر حال حکومت کی طرف سے بہ ظاہرکوشش کی گئی کہ مذاکرات کام یاب ہوں۔ یہ تو اللہ بہترجانتا ہے کہ وہ کتنے فی صد مخلص ہوکر اس ڈگر پر چلے تھے، مگر کچھ سیاسی جماعتوں اور تجزیہ نگاروں نے اس عمل کو بالکل پسند نہیں کیا بلکہ وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھا۔ حکومتی اور طالبان کی سطح پر تو کافی بیان داغے گئے کہ وہ مذاکرات کے حامی ہیں، مگر شائد کسی تیسری طاقت کو یہ مذاکرات منظور نہیں تھے۔ مذاکرات جو ہونا تھے، وہ ہوگئے مگر ابھی بہت سے لوگ ان مذاکرات سے ناامید نہیں ہوئے بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ کا راستہ اپنانے کی بجائے ڈائیلاگ سے دہشت گردی کے مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ لیکن کچھ پاکستان کے نام نہاد خیر خواہ مذاکرات کی بجائے جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔ کوئی ٹوئٹر پر تو کوئی ٹیلی فونک بیان پر ان مذاکرات کو سبوتاژ کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے۔
ملک کے تمام خیر خواہ اپنے اپنے انداز سے سوچتے ہوئے میڈیا کے ذریعے اپنے دل کی آواز سنا دیتے ہیں، مگر کبھی کسی نے عوام کے دل کی آواز سنی ہے۔ اس دہشت گردی میں جتنا نقصان عوام کا ہوا ہے، اتنا کسی اور کا نہیں۔ اگر جانیں ضائع ہوئیں، تو وہ غریب عوام کی اور اگر مالی نقصان پہنچا، تو وہ بھی عوام کو۔ حکومت کو جو بھی فیصلہ کرنا ہے، وہ عوام کو مدنظر رکھ کرکرنا ہوگا۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ڈائیلاگ سے دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے، تو پھر ڈائیلاگ کو جاری رہنا چاہیے اور اگر طاقت کا استعمال کرنا ضروری ہے، تو پھر اس کا بھی بھرپور استعمال کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری ملک دشمن طاقتیں ہمیں طالبان کے چکرمیں الجھا کر اپنا الو سیدھا کرلیں۔ ہماری فوج طالبان سے لڑتی رہے اور دوسری طرف اندر خانے ہمارے ملک میں امریکہ اور بھارتی بنئے اپنا کام کرتے رہیں۔
افغانستان، بنگلہ دیش تو پہلے ہی بھارت نواز ہیں اور ایران کے حالیہ بیان نے بھی ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کی دشمنی میں بھارت اور امریکہ ہمارے ہمسایہ اسلامی ممالک کو اپنے مفادکے لیے استعمال کرلیں۔ وزیراعظم پاکستان کو فوج کو طالبان کے خلاف استعمال کرنے سے پہلے چاروں طرف نظر دوڑانا ہوگی کہ کہیں جلد بازی میں غلط فیصلہ نہ ہوجائے۔ دہشت گردی ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے، مگر اس دیمک کو ختم کرنے کے لیے بھی وہ دوائی استعمال کی جائے، جس سے یہ دیمک دوبارہ جنم نہ لے۔
918 total views, 2 views today