تحریر ؛۔ خور شید علی
عکاسی ؛۔ شہزاد نوید
وسیم سجاد کی عمر 22 سا ل ہے اور وہ سوات کے حسین وادی مالم جبہ سے تعلق رکھتے ہیں،مالم جبہ سکی ریزارٹ پر وہ کبھی ایک سیاح تو کبھی دوسرے سیاح کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ان کو ٹیوب کرایہ پر دینے کی پیشکش کرتے ہیں، اور اسی تگ ودو میں اندھیرا چھا جاتا ہے، شام ہوتی ہی چہرے پرتھکن کے اثار لیکر وہ اپنے گھرروانہ ہو جا تاہے۔ وسیم سجاد پچھلے چھ سال سے برفباری کے موسم میں سیاحوں کوکرایہ پر ٹیوب دیتے ہیں،وہ ایک گھنٹہ کے ایک سو روپے لیتے ہیں، اور دن میں وہ چار سے چھ سو روپے تک کمالیتے ہیں۔ وسیم سجاد کہتے ہیں کہ تین مہینوں تک ہماراکاروبار عروج پر ہوتا ہے،مارچ کے بعد ہماری امدن میں کمی شروع ہو جاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ہر سال جنوری سے مارچ اور اپریل کے پہلے ہفتہ تک ہمارا سیزن ہوتا ہے، جب برف کم ہوجاتی ہے تو ہمارا کاروبارختم ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی دوسرا کام کاج بھی نہیں ملتا۔جتنے پیسے سردیوں کے موسم میں کمالیتے ہیں ا س پر پورا سال گزارا کر لیتے ہیں۔
جاوید شاہ کی عمرپندر ہ دسال ہے وہ سکی انگ کا سامان کرایہ پر دیتا ہے، وسیم سجاد کی طرح جاوید بھیصبح سات بجے وہ اپنے گھر سے نکل کر مالم جبہ سکی انگ ریزارٹ چلا جاتا ہے، وہاں پر اپنے سکی انگ کے سامان برف کے کھلے میدان میں رکھ کر سیاحوں کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے، جاوید شاہ کہتے ہیں کہ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے کہ میں نویں کلاس کا طالب علم ہوں، سردیوں کی چھٹیوں میں جب سکول بند ہو جاتے ہیں اور مالم جبہ میں برفباری شروع ہو جاتی ہے تو میں والدین کا ساتھ دینے کیلئے سکی انگ کا سامان لیکر ہر روز مالم جبہ جاتا ہوں اور وہاں پر کرایہ پر سکی انگ کا سامان سیاحوں کو دیتا ہوں ،ساتھ ساتھ ان کوسکی انگ کی تربیت بھی سکھاتا بھی ہوں، ہمارا یہ کاروبارماہجنوری سے شروع ہوجاتا ہے اور پریل کے مہینے تک ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ روزانہ میں چار پانچ سو روپے کمالیتا ہوں، انہوں نے کہا کہ میرے بڑے بھائی پرائیویٹ گاڑی چلاتا ہے جبکہ باپ چھوٹا موٹا کام لیتے ہیں۔غربت کی وجہ سے گھروالوں کیساتھ مزدوری کرنا پڑتی ہے، تاکہ چند دن سکون سے گزر سکیں۔
عمر شاہ کی عمر پینتالیس سال ہے ۔ وہ مالم گاؤں میں رہتا ہے، مالم جبہ میں انہوں نے برف میں استعمال ہونے والے بڑے بوٹ کو ترتیب سے رکھے ہیں، جن میں چھوٹے بڑے اور درمیانے بوٹ شامل ہیں، وہ یہ بوٹ سیاحوں کر کرایہ پر دیتے ہیں ، سیاح یہ بوٹ کرایہ پر لیتے ہیں اور وہ برف میں دو ر دور تک چاتے ہیں، لمبے اور گرم بوٹ ہونے کی وجہ سے سیاح اس کو خوشی خوشی کرایہ پر لیتے ہیں،اس سے سیاحوں کے پاؤں گیلے بھی نہیں ہوتے اور گرم بھی ہوتے ہیں، عمر شاہ کہتے ہیں کہ میرے پاس تیس کے قریب چھوٹے بڑے بوٹ ہیں، جن کو ہم ایک سو روپے سے لیکر دو سو تک سیاحوں کو کرایہ پر دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا یہ کاروبار بہت کم مدت کیلئے ہیں ، جب برف ختم ہو جاتی ہے تو ہمارا کاروبار بھی ختم ہو جاتا ہے، اور پھر وہی بے روزگاری ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔
وادی مالم جبہ سوات کا سب سے حسین وادی ہے جو سطح سمندر سے 9300 فٹ بلند ہے، اس وادی میں سردی کا موسم شروع ہوتی ہی ساتھ برفباری بھی شروع ہو جاتی ہے، جو اپریل تک جاری رہتی ہے، ہر سال وادی مالم جبہ میں ایک فٹ سے لیکر سات فٹ تک برف پڑتی ہے، جس کو دیکھنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے ملک بھر سے سیاح وادی کارخ کرتے ہیں، برف کے موسم میں یہاں کے مقیم لوگوں کو کاروبار کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ اس وادی کے رہنے والے بیشتر لوگ برف کے دنوں میں چھوٹے موٹے کاروبار کرتے ہیں، جن میں کرایہ پر بوٹ دینا، سکی انگ کا سامان دینا، ٹیوب کرایہ پردینا، چائے فروخت کرنا، ابلے ہوئے انڈے فروخت کرنا ، چپس اور دیگر اشیاء کی فروخت شامل ہیں۔ان اشیاء کو فروخت کرنیوالوں میں پانچ سال کے بچے سے لیکر ساٹھ سال تک بزرگ شہری شامل ہیں۔یہاں کے مقامی ابادی نے کاروبار کیلئے مالم جبہ ٹاپ پر چھوٹے چھوٹے کیبن بنا رکھے تھے، جن میں وہ مختلف اشیاء فروخت کرتے تھے، لیکن سال 2014 میں ان چھوٹے کیبنوں کو مسمار کیا گیا،جس سے عمرشاہ ، جاوید شاہ اور وسیم سجاد کی طرح اور بھی بہت سے لوگ اپنے کاروبار سے محروم ہوگئے ، وادی کے لوگ اس بات پر حکومت سے ناراض ہے کہ انہوں نے سیاحوں کے لئے بنے چھوٹے کیبین کو ہٹادیا ہے، عمر شاہ کہتے ہیں کہ یہ چھوٹے کیبن پچھلے سولہ سال سے یہاں پر تھے، لیکن پچھلے سال ان کیبینوں کو ہٹادیا گیا ہے، جس سے یہاں کے مقیم لوگوں کو سب سے زیادہ پریشان کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ سیاح برف کے موسم میں یہاں اکر بیٹھتے تھے، چائے ، بسکٹ ، سموسے ، پکوڑے اور کھاناکھاتے تھے،جس سے ہماری کمائی ہوتی تھی ، لیکن اب ہم فاقوں پر مجبور ہیں۔
وسیم سجاد کہتے ہیں کہ جب مالم جبہ سے کیبن کو ہٹایا نہیں گیا تھا تو اسوقت ہمارا سیزن سالہا سال ہوتا تھا سیاح اتے تھے جس سے ہمارا کاروبار جاری رہتا ، اور ہمارے گھروں کے اخراجات پوری ہوتے ، لیکن جب سے کیبن کوختم کیا گیا ہے، ہمارا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، انہوں نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں سے مالم جبہ کی سڑک بھی ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہے جس پر کسی بھی حکومت نے توجہ نہیں دی ہے، اس وجہ سے بھی سیاحوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت اگر ا س جانب توجہ دیں اور سڑک کو تعمیر کریں توسیاحت کیساتھ ساتھ یہاں پر کاروبار کے مواقع بھی پیدا ہو جائیں گے۔
حسین وادی کیساتھ ساتھ مالم جبہ کی ایک اور خاصیت بھی ہے ،مالم جبہ کی سکی انگ ریزارٹ پاکستان کی سب سے بہترین ریزارٹ ہے، جہاں پر ہر سال سکی انگ کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں، جس میں ملک بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں، اس کے باوجود مالم جبہ جانے والے سڑک کی حالت کسی کھنڈر نما عمارت سے کم نہیں، سال 2014 میں تحریک انصاف کے صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے سکی انگ مقابلوں کے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال 2015 تک مالم جبہ کی 45 کلومیٹر سڑک پختہ ہوگی ، لیکن پندرہ مہینے گزر چکے ہیں ابھی تک اس پر کام شروع نہ ہو سکا ، انہوں نے مالم جبہ میں ایک فائیو سٹار ہوٹل بنانے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ وعدہ بھی ایفا نہ ہوسکا۔
سوات میں کشیدہ حالات سے پہلے مالم جبہ میں ایک بہترین ہوٹل اسٹریا کی حکومت نے تعمیرکرایاتھا، جہاں ملکی اور بین الاقوامی سیاح رات گزارتے تھے اور اس وادی کے حیرت انگیز مناظر سے لطف اٹھاتے لیکن سال 2007 میں جب سوات میں دہشت گردوں کی بادشاہت قائم ہوئی تو سوات کے تعلیمی اداروں، پلوں، ہسپتالوں کی طرح مالم جبہ کی اس پر شکوہ عمارت کو بھی بموں سے اڑا یا گیا، خوش قسمتی سے کئی تعلیمی ادارے، پل تو بن گئے ، لیکن سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرنے والا عمارت خواب بن گیا اور تعمیر کیلئے اب کسی مسیحا کا منتظر ہے۔
وسم سجاد سمیت وادی مالم جبہ میں چھوٹے موٹے کام کرنیوالے بیشتر بچے ، جوان اور بزرگ شہری اس امید کیساتھ وہاں اپنا کاروبار جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کسی دن مالم جبہ جانے والے سڑک پر تعمیراتی کام شروع ہوگا اور یہ سڑک بھی مری کی طرح تعمیر ہو جائے گی،جس سے سیاح وادی کا رخ کرینگے اور ہمارا چھوٹا موٹا کاروبار دوبارہ فروغ پاسکے گا۔
1,660 total views, 2 views today