پے در پے بم دھماکوں میں پھر شدید نقصان ہوا۔ بہت سے فوجی شہید ہوئے اور ان کے ساتھ کئی عام شہری بھی۔ یہ دھماکے بابائے دہشت گردی مشرف کی سوغات ہیں، لیکن ان میں حالیہ تیزی سے حکومت اور عوام کو ایک بات کا پتہ چل گیا کہ طالبان سے مذاکرات کا جو ڈول ڈالا گیا ہے،
اسے سرے تک پہنچانا آسان کام نہیں۔
ہیں کو اکب کچھ نظر آتے ہیں
کچھ دنیا بھر کی سیاست کا عام طور سے اور پاکستان کی سیاست کا خاص طور سے ٹریڈ مارک ہے۔ بات واضح ہے، وہ لوگ سرگرم ہوگئے ہیں جو مذاکرات نہیں چاہتے۔ جو چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کبھی ختم نہ ہو، اس کے بجائے یہ ملک ختم ہو جائے۔ یہ عقدہ کیسے کھلے کہ کیوں مذاکرات پر تیار حکیم اللہ محسود کو ’’کانٹا‘‘ سمجھ کر ڈرون حملے کے ذریعے راہ سے ہٹا دیا گیا اور اس کی جگہ ایک انکاری فضل اللہ کو لا بٹھایا گیا۔ کیا فضل اللہ، حکیم اللہ سے زیادہ ’’قبول صورت‘‘ ہیں؟ یہ لو گ بہت طاقتور ہیں۔ پہلے جتنے شاید نہیں رہے کہ ریٹائر منٹس ہوگئیں لیکن ان کی زور آوری اب بھی اتنی زیادہ ہے کہ حکومت کی چلنے نہیں دے رہے ۔ اور صرف وارداتیں ہی نہیں کرتے ، یہ لوگ ہپناٹزم بھی جانتے ہیں۔ دیکھیں، کس طریقے سے حکومت کو ہپناٹائز کر کے رکھا ہے کہ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے او رکیا نہ کرے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ہپناٹزم صرف مذاکرات کے معاملے میں ہے ۔ دوسرے معاملات میں نہیں چنانچہ دوسرے شعبوں میں حکومت خوب کارکردگی دکھا رہی ہے اور اپنے ‘‘آئیڈیل ’’ آصف علی زرداری کا مشن قابل تحسین پھرتی سے پورا کر رہی ہے ۔ مذاکرات سے روکنے کا ایجنڈا کس کا ہے ۔ ظاہر ہے امریکہ کا اور امریکہ کے زیر قہر و غضب علماء پر بھی حملے انہی دنوں بڑھ گئے ہیں۔ یہ محض اتفاق کی بات تو نہیں لگتی۔ تین دن میں پے در پے حملے ہوئے اور راولپنڈی، سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین میں سات علماء کو قتل کیا گیا۔ ان میں مفتی عثمان بھی تھے جو طالبان سے مذاکرات کی حکومتی کوششوں میں شریک تھے اور رابطہ کار کا کام کر رہے تھے ۔ دہشت گردی کے اسی سلسلے کی ایک کڑی پشاور کے تبلیغی مرکز پر حملہ ہے جس کے بارے میں وفاقی حکومت کے سدا حیران وہمیشہ پریشان وزیر چوہدری نثار نے کہا ہے کہ تبلیغی مرکز پر حملہ جن لوگوں نے کیا، ان کا نام لے دیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ یعنی حکومت کو ان کے ناموں کا پتہ ہے لیکن ان کے خلاف کارروائی کرنا تو بہت دور کی بات،وہ ان کا نام تک نہیں لے سکتی۔ تو اتنے طاقتور یہ لوگ ہیں۔ اور اتنی کمزور یہ حکومت ہے ۔ لیکن جو بھی ہے ، امریکہ اور اس کے نیاز مندوں مشرف، کیانی پاشا وغیرگان کی لائی ہوئی فصل بہاراں کو الوداع کہنے کی ذمہ داری اسی حیران پریشان حکومت کے کندھوں پرآپڑی ہے ، نبھانی تو پڑے گی اور اس کام میں اگر تیز رفتاری سے آگے بڑھنا خطرناک ہے تو آہستہ آہستہ چلنے میں اور بھی خطرہ ہے ۔ڈرادوں کے چھلاوے اسے گھیرے ہوئے ہیں اور پتہ نہیں اسے بچ نکلنے کا اصول یاد ہے کہ نہیں جو کچھ یوں ہے کہ ڈر گئی تو مر گئی!
* کبھی تنقید کے اندر تعریف چھپی ہوتی ہے۔ چلئے ، تعریف نہ سمجھئے ، اعتراف کہہ لیجئے ۔ عمران خاں نے کہا ہے کہ ملک کو امریکی غلامی سے نکالنے کا کام نواز شریف نہیں کر سکتے ، یہ کام میں کروں گا۔ گویا نواز شریف ملک کو امریکی غلامی سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ یہ تنقید ہوگئی، اعتراف یہ ہے کہ نواز شریف ملک کو امریکی غلامی سے نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یعنی نیّت ہے، اہلیت نہیں۔ کیا یہ اچھی شروعات نہیں کہ طاقت کے مختلف ایوانوں سے وہ لوگ چلے گئے جو امریکی غلامی کی زنجیریں کسنے میں لگے رہے اور ان کی جگہ وہ آگئے جو یہ زنجیریں کاٹنے کی خواہش رکھتے ہیں اگرچہ ہمت نہیں۔(یا شاید اس کی فرصت نہیں؟) یہ ہمّت کیسے آئے گی۔ عمران کی عوامی طاقت اور حمایت پہلے بھی کم نہیں تھی لیکن موجودہ حکومت نے عوام کو ریلیف پہ ریلیف دینے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے ، اس کے بعد سے اور بڑھ گئی ہے ۔ اپنی طاقتور پوزیشن سے عمران خاں حکومت کا ساتھ دیں تو حکومت کی نااہلی اہلی میں اور کم ہمّتی بیش ہمّتی میں بدل سکتی ہے لیکن یہ تعاون نہیں ہورہا۔ نواز شریف نے انتخابی مہم میں عمران کے حملوں پر فراخدلی کا مظاہرہ کیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد یہ فراخ دلی پتہ نہیں کدھر چلی گئی ۔وہ کراچی جا کر سندھ کے وزیراعلیٰ کو شرف ہائے ملاقات بخش چکے ہیں لیکن عمران کے وزیراعلیٰ کو ان کی درخواست کے باوجود وقت دینے کے لئے تیار نہیں۔ کئی لیگی وزیر عمران پر گولہ باری اس جوش و خروش سے کر رہے ہیں جیسے یہ بات ان کی وزارت کے حلف میں شامل تھی۔ یہ لوگ عمران خاں کو حکومت سے دور کرکے یا دور رکھ کے اپنی حکومت کی کمزوری بڑھا رہے ہیں اوراس کار خیر میں چوں کہ کام یاب بھی ہیں، اس لیے مبارک باد کے مستحق۔
* ایک صحافتی ورک شاپ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا رائے عامہ کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بالکل رکھتا ہے اگر رائے عامہ بدلنے کی کوشش اس کی اپنی ہو۔ اگر سپانسر ڈاور ٹو مچ پیڈہو تو پھر نہیں۔ عوام کو اتنا سیانا بھی میڈیا ہی نے بنایا ہے کہ وہ فرمائشی پروگرام کو بھانپ لیتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ فرمائش کہاں سے آئی ہے اور اصل ارادے کیا ہیں۔ مثالیں؟ ایک نہیں کئی ہیں۔ میڈیا نے بھارتی بالادستی مسلّط کرنے کے لیے کیسی دل فریب مہم چلائی۔ کام یاب کیا ہوتی، الٹا نواز شریف کی وہ کوشش بھی مشکوک ہوگئی، جو وہ بھارت کے ساتھ برابر کی سطح کی دوستی کے لیے کر رہے ہیں۔ میڈیا نے زور دار فرمائش پر ملالہ جوزف زئی کو قوم کی ہیروئن بنانے کے لیے ایسی مہم چلائی کہ ہٹلر نے اسرائیل میں چلائی ہوتی، تو اسرائیل والے ہولوکاسٹ کوجھوٹی کہانی سمجھ کر اسے اپنا قومی ہیرو مان لیتے۔ لیکن کیا قوم نے اپنی رائے بدلی؟ ملالہ پاکستان کے لیے اتنی ہی ’’پسندیدہ‘‘ ہے جتنی لیلیٰ خالد اسرائیل کے لیے تھی۔ اب تازہ مہم جوئی کا حال دیکھ لیجیے۔ کراچی کے لینڈ مافیا کے پیٹرن انچیف، نہتے راہگیروں کو اٹھا کر پولیس مقابلے کرنے اور مال بنانے کے ماہر ‘‘موگامبو’’ کو ہیرو بنانے کے لیے ملالہ سے بھی بڑا سونامی لایا گیا۔ موگامبو ہر جھوٹے پولیس مقابلے کے بعدکچھ مخصوص رپورٹروں کو بھاری نذرانے پیش کرتا تھا۔ اسے ہیرو بنانے والوں میں یہ فیض یافتگان آگے آگے تھے، لیکن کیا وہ ہیرو بنا۔ کراچی جا کر کسی سے پوچھ لیجیے۔ ایک معاصر کی خبر ہے کہ موگامبو کو اس کے کسی دوست نے مشورہ دیا تھا کہ اس طرح بے گناہوں کو تڑپا تڑپا کر نہ مارو، کسی دن بددعا لگ جائے گی، لیکن کم نصیب نے بددعا کی تاثیر کا مذاق اڑایا اور اربوں پتی بننے کی دوڑ میں جتا رہا، پھر وہی ہوا۔ اربوں روپے یہیں رہ گئے۔ ساتھ تو بس بددعائیں گئیں۔ میڈیا رائے عامہ بدلتا ہے لیکن اس کے ایسے فرمائشی پروگرام لوگ اگلے ہی دن بھلا ڈالتے ہیں۔
* امریکہ نے سابق صدر آصف زرداری کو دھمکی دی کہ وہ مشرف کے خلاف بیان نہ دے، کیوں کہ یہ این آر او کی روح کے خلاف ہے۔ یہ دھمکی امریکی سفارت کار نے بالمشافہ ملاقات میں دی۔ زرداری نے مشرف کو بلّاکہہ کر حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اسے بھاگنے نہ دے۔ یہ بیان بس ایک ہی بار دیا، امریکی سفیر کی ’’نصیحت‘‘ کے بعد سے زرداری خاموش ہیں۔ دوستانہ مشورے نے کام دکھا دیا۔ زرداری بہت ہوش یار ہیں، لیکن بندہ بشر ہونے کے ناطے این آر او والا معاملہ اور اس کی شرطیں بھول گئے جو ملاقات سے یاد آگئیں۔ خیر، یہ تو ایک ضمنی ماجرا تھا، اصل بات یہ سامنے آئی کہ امریکہ نے مشرف کی سرپرستی سے ابھی ہاتھ اٹھایا نہیں۔ حالاں کہ اب یہ ’’بہادر کمانڈو‘‘ اس کے کسی کام کا نہیں رہا۔ اس سرپرستی کی وجہ یہ نہیں کہ وہ مشرف سے کوئی مزید کام لینا چاہتا ہے بلکہ یہ لگتی ہے کہ مشرف پر مقدمہ چلا، تو کچھ کار آمد پردہ نشین بے پردہ ہو جائیں گے۔ بس انھی پردہ دارخدّام کی پردہ دری نامطلوب ہے۔
1,160 total views, 1 views today