تحریر عدنان باچہ
وادی سوات میں بین الاقومی معیار کے قیمتی پتھر زمرد کے کان مینگورہ کے علاقے فضاگٹ میں موجود ہیں،یہ کان 1958 میں والی سوات کے دور میں دریافت ہوئی،جسے بعد میں سرحد ڈولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کیا گیا جو مشکل سے دو سال چلنے کے بعد1996 میں بند کیا گیا،پندرہ سالہ بندش کے بعد زمرد کی اس کان پر 2010 میں دوبارہ کھدائی کا کام شروع کیا گیا۔
کان پر طالبان کا قبضہ
1996 میں بند ہونے والے زمرد کی کان پر2005 میں طالبان نے قبضہ کیا،کان میں کھائی کرنے والے نجی کمپنی کے مالک خالد خان کے مطابق طالبان کے قبضے کے دوران پانچ سالوں میں کان کا حلیہ بھگاڑ کے رکھ دیا گیا’’ روزانہ تین سے چار ہزار افراد کان میں کام کرتے تھے اور ملنے والے قیمتی پتھروں کو بیرون ملک فروخت کرتے تھے ، طالبان کے دور میں کان کو بے دردی سے لوٹا گیا تھا ‘‘
پرانہ اور روایتی طریقہ کار
سوات میں موجود فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان کا کل رقبہ182 ایکڑ ہے جو وسیع و عریض پہاڑی علاقے میں پھیلا ہوا ہے،کان میں کئی سو میٹر تک سرنگیں بنائی گئی ہیں جس میں مزدور کھدائی کرتے ہیں،کان میں کام کرنے والے مزدور عبد اللہ کے مطابق جدید سہولیات اور مشینری نہ ہونے کے باعث ان سرنگوں میں پرانے اور روایتی طریقہ کار سے کام کرتے ہیں جو مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہے۔ کھدائی کے دوران برآمد ہونے والے پتھروں کو
بین الاقومی معیار کا قیمتی پتھر
سوات میں برآمد ہونے والے زمرد بین الاقوامی معیار کا قیمتی پتھر ہے جو اپنی انفرادیت، رنگ اور باریکی کے لحاظ سے دنیا بھر میں شہرت کا حامل ہیں،قیمتی پتھروں کے ماہرین کے مطابق زیادہ تر پتھر ایک سے پانچ قیراط کے ہوتے ہیں جس کی قیمت پچاس ہزار سے لیکر لاکھوں میں بنتی ہیں جبکہ قیمت کا دورومدار کٹائی اور کوالیٹی پر ہوتا ہے
پتھروں کی کٹائی
زمرد کان سے برآمد ہونے والے پتھروں کی کٹائی بھارت اور تھائی لینڈ میں کی جاتی ہے، پتھروں کے ماہر محمد ابراہیم کے مطابق ملک میں کٹنگ انڈسٹری نہ ہونے کے باعث ان پتھروں کو کٹائی کے لئے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے ، جس کے باعث پہلے لوگ سوات کے زمرد کو بھارتی زمرد سمجھتے تھے لیکن اب لوگ جان گئے ہیں کہ یہ سوات کے زمرد ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پتھروں کی کٹائی کی انڈسٹری لاگئے تاکہ ملنے والے پتھر ملک کے اندر ہی تیاری کے مراحل سے گزرے۔
زمرد کی اونے پونے داموں خرید و فروخت
سوات سے برآمد ہونے والے زمرد کی مقامی سطح پر نیلامی ہوتی ہے جو بیوپاری اونے پونے داموں خرید کر بھارت اور تھائی لینڈ میں کٹائی کے بعد دبئی،امریکہ،اسٹریلیاں اور دیگر خلیجی ملکوں میں فروخت کرتے ہیں ،زمرد کی قیمت سائز ، رنگ اور صفائی کے لحاظ سے لگائی جاتی ہے ۔
ہزاروں گھرانوں کا ذریعہ معاش
فضاگٹ کے مقام پر زمرد کی کان میں چارسو کے قریب مزدور کام کرتے ہیں اور ہزاروں گھرانے کی روزی روٹی اس سے وابستہ ہے ، کان کے مالک خالد خان کے مطابق سالانہ حکومت کو ایک کروڑبیس لاکھ روپے قسط کے طور پر بھی دئے جاتے ہیں۔
حکومتی غفلت ،کم تر منافع
جدید مشینری نہ ہونے کے باعث کان کے صرف بیس ایکڑ میں کھدائی ہوتی ہے فضاگٹ کے کان کے علاقہ بریکوٹ کے علاقہ شموزئی اور ضلع شانگلہ میں بھی زمرد کے کان موجود ہیں جو محکمہ اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث بن ہیں ، جدید سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کے فقدان کے باعث حکومت کو اس کان سے قابل ذکر منافع نہیں ملتا،کان کی سڑکیں کچی اور کمریسروں کے ذریعے کھدائی کی جاتی ہے جو مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ کافی وقت طلب کام ہے۔ محکمہ معدنیات کے مطابق حکومت بند پڑے کانوں کے بارے سنجیدہ ہے اور بہت جلد ان کانوں کو کھول دیا جائے گا جبکہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے بھی بات چیت چل رہی ہے۔
زمرد کا استعمال
قیمتی پتھر زمرد کا استعمال انگھوٹیوں اور زیورات میں ہوتا ہے جبکہ گھڑیوں کے مشہور برانڈ رولیکس میں بھی کسی وقت میں زمرد لگائے جاتے تھے ،پتھروں کے ماہرین کے مطابق قیمت ذیادہ ہونے کے باعث اب اس کا رجحان کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور ذیادہ تر زمرد بیرون ممالک فروخت کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو
4,176 total views, 4 views today