ضلع سوات کو اپنی تاریخی حیثیت کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔ الحاق سے پہلے یہ علاقہ ایک ریاست تھا جس کے باقاعدہ اپنے حکم ران تھے جو ریاستی معاملات کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے تھے۔ تمام امور کی باقاعدہ نگرانی کی جاتی تھی۔ ریاستی حکم رانوں نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے انتہائی اہم اقدامات کیے جس کی بہ دولت آج بھی لوگ ریاستی دور کو یاد کرکے کف افسوس ملتے ہیں۔
اگر ایک طرف ضلع سوات ماضی کی ایک کامیاب ریاست کے طور پر جانا پہچانا جاتا ہے، تو دوسری طرف اپنی خوب صورتی کی بہ دولت پوری دنیا میں یہ الگ پہچان رکھتا ہے۔ تاریخی آثار سے مالامال سوات ترقیاتی کاموں کے حوالے سے باقی ماندہ صوبے سے بہت پیچھے ہے۔ دہشت گردی کے دور کے بعد آج کا سوات بدھ مت کے کھنڈرات کی شکل پیش کر رہا ہے۔ سڑکوں کی ابتر حالت، کارخانوں اور ائیرپورٹ کی بندش نے ترقی کا پہیہ جام کرکے رکھ دیا ہے۔ دو ہزار پانچ کا تباہ کن زلزلہ ہو یا شریعت کے نام پر جنگ، قدرتی آفات ہوں یا انسانی، ان تمام کا خمیازہ سوات کے غریب اور لاچار عوام ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ سوات میں امن کی ’’بہ حالی‘‘ اور ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے بارے میں ہر روز خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں مگر زمینی حقایق یک سر مختلف ہیں۔ ترقیاتی کاموں کی راہ میں شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک انجینئر صاحب اور امن کی راہ میں طالبان کے بعد اب ’’نامعلوم افراد‘‘ رکاؤٹ بنے ہوئے ہیں۔
قارئین کرام! یہ کوئی سو سال پہلے کی نہیں بلکہ آٹھ نو سال پہلے کی بات ہے کہ سوات کی اصل بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب ایک مقامی ملا نے اسلام کے نام پر سوات میں ایک ’’تحریک‘‘ کا آغاز کیا اور لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ کئی تہاذیب کی آماج گاہ (سوات) کو تاریکیوں اور پتھر کے دور میں دھکیلنے کا پروگرام بڑھتا گیا۔ جہاں کبھی پرندوں کی مسحور کن آوازیں دلوں کے تار چھیڑا کرتی تھیں، اب وہاں گولیوں کی تھڑتھڑاہٹ ہی سنائی دیتی ہے۔ مذکورہ پُرتشدد تحریک کی زد میں سوات کے ہزاروں لوگ آئے۔ ایک وقت تھا جب امن کے حوالے سے سوات کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر اب دہشت گردی کے حوالے سے سوات کا نام پیش پیش تھا۔ ایک خوف کی فضا میں سوات کے عوام زندگی گزارنے لگے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جس وقت ملا کی تحریک شروع ہوئی، اس وقت پاکستان کے تمام اداروں کا وجود یہاں پر تھا۔ تمام ادارے جنھوں نے وطن اور قوم کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا، کیوں ان حالات میں یہاں پر مکمل ناکام ہوئے؟ ان معاملات سے بہ حیثیت ایک نوآموز لکھاری ہم باخبر نہیں کہ وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی بنا پر تمام ادارے سوات میں کم زور کیے گئے اور پرامن وادی کو ’’انگار وادی‘‘ میں تبدیل کیا گیا۔پھر ایک وقت ایسا آیا کہ افواج پاکستان نے علاقہ سے پُرتشدد تحریک کے خاتمے کے لیے سوات کے عوام کو علاقہ خالی کرنے کے احکامات جاری کیے جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ اپنے ہی میں وطن میں مہاجر بن کر کیمپوں میں رہنے لگے۔ سوات میں آپریشن شروع ہوا اورتقریباًتین ماہ بعد افواج پاکستا ن کی جانب سے علاقہ میں امن قایم ہونے اور لوگوں کو واپس سوات آنے کا مژدہ سنایا گیا۔ نقل مکانی کے بعد آہستہ آہستہ لوگ زندگی کی طرف لوٹنے لگے۔ بہ قول ان اداروں کے سوات میں امن کو بہ حال ہوئے چھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اب سوات میں ایک ایسی ’’بلا‘‘ نے جنم لیا ہے کہ جو دکھائی نہیں دیتی، البتہ یہاں کے لوگوں کو سالم نگل کر غایب ہونے میں کامیاب ضرور ہوتی ہے۔ اس بلا کو ہمارے محافظوں نے ’’نامعلوم افراد‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ مائیں شعلے فلم کے ’’گبر سنگھ‘‘ نہیں بلکہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کا نام لے کر اپنے بچوں کو کہتی ہیں کہ ’’بیٹا! سوجاؤ، نہیں تو نامعلوم افراد آجائیں گے۔‘‘
قارئین کرام! اسی ’’نامعلوم‘‘ بلا نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران میں آٹھ افراد کو نگل لیا ہے، جس میں سوات کی ممتا ز سیاسی شخصیت وپی پی پی کے ضلعی جنرل سیکرٹری فضل حیات چٹان، ان کے بھائی سید علی خان، قریبی دوست و پی پی پی رہنما اکبر علی ناچار، معروف معالج نذیر بابو صاحب، پراپرٹی ڈیلر حسین علی، حاجی بخت زرین، فضل اور عبدالرحمان عرف اسد شامل ہیں۔ ان ’’نامعلوم افراد‘‘ کے ہاتھوں مرنے والوں میں پانچ کا تعلق امن کمیٹی سے تھا جب کہ نذیر بابو صاحب، حسین علی اور سید علی خان کو کس بنیاد پر قتل کیا گیا؟ وہ وجوہات تاحال معلوم نہ ہوسکیں۔
قارئین کرام! سوات میں یہ بات بڑی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کے کھاتے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں پیش رفت کی توقع ’’دیوانے کی بڑ‘‘ کے مصداق ہے۔ باالفاظ دیگر جو اس کھاتے میں گیا، وہ ضایع ہوگیا۔ اس ’’نامعلوم‘‘ بلا کے بڑھتے ہوئے قدموں نے سوات میں موجود تما م اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ’’نامعلوم‘‘ بلا اکثر محافظوں کی موجودگی میں بھی اپنے شکار کو نگل کر باآسانی غایب ہو جاتی ہے۔ اب تو سوات میں ایسا لگ رہا ہے جیسے ’’نامعلوم افراد‘‘ کا باقاعدہ راج قایم ہوچکا ہے، اور یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سول انتظامیہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ بلاشبہ ’’نامعلوم افراد‘‘ کی کارروائیاں انتظامیہ کی کوششوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ ابھی تک کسی بھی ادارے کی طرف سے سوات کے عوام کو ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حوالے سے مطمئن نہیں کیا جا سکا ہے۔
برسبیل تذکرہ، پچھلے دنوں ایک مقامی اخبار میں یہ خبر دیکھنے کو ملی کہ سوات میں صحافت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اس حوالہ سے سوات کے سینئر صحافی غلام فاروق کا کہنا ہے کہ جب یہاں پر عام عوام کا گھومنا پھرنا محال ہے، تو ایسے میں صحافت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ دوسری طرف سیکورٹی اداروں نے بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بعض لوگ پولیس کو بھی ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ اُس دایرے سے نکل نہیں پا رہی جو اس کے گرد کھینچا گیا ہے۔ البتہ دیگر سیکورٹی ادارے سوات میں مکمل طور پر آزاد اور بااختیار ہیں۔ جاتے جاتے ہم سوات کی بقاء کے لیے کام کرنے والے تمام اداروں بہ شمول محکمۂ پولیس سے اپیل کرتے ہیں کہ سوات میں امن کی بہ حالی کے لیے ’’نامعلوم افراد‘‘ کا خاتمہ ضروری ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہوا، تو پھر شکوک و شہبات جنم لیں گے، جس سے اچھے اثرات کبھی مرتب نہیں ہوں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
ہر شخص سر پہ کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی
808 total views, 2 views today