تحریر خورشید علی
اس کی عمر پچانوے سال ہے۔ چہرے پر سفید داڑھی اور بغیر لاٹھی کے چاق وچوبند، عمر اور صحت کے لحاظ سے وہ ایسے لگ رہے ہیں جیسے ابھی ساٹھ ستر برس کے ہوں گے۔ بچپن اور آزادی کے قصے اس کو ازبر ہیں، اب بھی ریاست سوات کو یاد کرکے آنکھوں میںآنسو آجاتے ہیں۔ روزانہ ٹائم ٹیبل کے حساب سے کھانا کھاتے ہیں۔ یہ ہیں سوات کے مشہور وادئ کوکارئ کے رہائشی اور ریاست سوات کے مشہور قاضی عفران الدین، جنھوں نے 1920ء میں مینگورہ شہر کے نواحی علاقہ نویکلے میں آنکھیں کھولیں۔ ایک سال اپنے آبائی گاؤں میں گزارنے کے بعد ہجرت کرکے مینگورہ شہر میں آکر آباد ہوئے۔ جہاں سے بارہ سال کی عمر میں گاؤں کوکارئی منتقل ہوگئے اور وہی پر زندگی بسر کرنے لگے۔ قاضی غفران الدین والئی سوات کے دور میں قاضی رہے اور پوری ریاست کے ناظم تھے۔ والئی سوات کو جو بھی اہم فیصلہ موصول ہوتا حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے قاضی غفران الدین کو دکھاتے ، جس کے بعد فیصلے پر دستخط کرتے۔
قاضی غفران الدین نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل اسکول ودودیہ سے حاصل کی۔ ساتویں جماعت پاس کرنے کے بعد حصول علم کیلئے سوات سے دہلی روانہ ہوئے۔ قاضی غفران الدین کہتے ہیں کہ سال1935ء میں، میں دہلی روانہ ہوا، جہاں پر میں نے مدرسہ عالیہ عربیہ فتح پوری دہلی مفتی کفایت اللہ کے زیر سایہ دینی علوم حاصل کئے اور 1945ء تک وہی رہے۔ ہر دو سال بعد ایک مرتبہ آبائی گاؤں آجاتے اور پھر دہلی روانہ ہوتا۔ اس وقت سوات سے ایک گاڑی نکلتی تھی جس پر درگئی تک میں جایا کرتا تھا۔ وہاں سے ریل میں نوشہر ہ، پھر لاہور اور لاہور سے ریل ہی کے ذریعے دہلی پہنچتا تھا۔ یہ سفر تین سے چار دن کا ہوتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دینی علوم سے فراغت حاصل کرنے کے بعد واپس اپنی ریاست سوات آیا۔ اس وقت باچا صاحب کی حکومت تھی۔ میرے والدماجد اور باچا صاحب کی بچپن کی دوستی تھی جس کی بدولت مجھے نوکری مل گئی۔ باچا صاحب نے مجھے گورنمنٹ ہائی اسکول بنڑ میں دینیات کا استاد مقرر کیا اور ماہانہ پچھترروپے تنخواہ مقرر ہوئی، لیکن میں اس عہدے پر خوش نہیں تھا۔ میں نے باچاصاحب سے گزارش کی کہ مجھے محکمہ قضا میں تعینات کیا جائے، کیونکہ میں وہاں بہتر کام کرسکوں گا، جس کے بعد باچاصاحب نے مجھے وہا ں تعینات کردیا۔
قاضی غفران الدین کہتے ہیں کہ پہلے میں قاضی ریاست سوات تھا۔ بہتر اور شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کے بعد میانگل جہانزیب (والئی سوات)نے مجھے ناظم ریاست سوات بھی تعینات کردیا جس کے بعد میری ذمہ داریاں بڑھ گئیں اور ریاست سوات کے تمام علاقوں (سوات، بونیر، شانگلہ ، کوہستان) کے قاضیوں کے فیصلوں کو میں چیک کرتا۔ کہیں اگر کوئی غلط فیصلہ ہوتا، تو فیصلہ کو ختم کرتا اور انصاف کے مطابق دوسرا فیصلہ دیتا جبکہ قاضی اور فریق کیخلاف بھی کارروائی کی جاتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ والئی سوات کے دور میں قاضی فیصلے شریعت کے مطابق دیتے، اگر کسی کو اعتراض ہوتا، تو اس کے خلاف اپیل دارالعلوم میں ہوتی تھی۔ روزانہ آٹھ سے بارہ تک عام نوعیت کے فیصلے جبکہ دو سے چار خاص نوعیت کے فیصلے ہواکرتے تھے۔ ایک معمولی کاغذ پر شکایت والئی سوات کو لکھ دی جاتی جو قاضیوں کو بھیجوا دی جاتی اور قاضی حضرات اس کی شکایت اسلام کی روشنی میں پرکھتے۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ پوری ریاست کے اندر ساٹھ قاضی تعینات تھے، جو دوسے تین دن کے اندر قصاص، میراث، جائیداد کے تنازعے سمیت دیگر فیصلے سنایا کرتے تھے۔ فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار صرف دارالعلوم کے ناظم گڑھی باباجی کو حاصل تھا، جو دونوں فریقوں اور ان کے قاضی کو بٹھا کر شریعت کے مطابق فیصلہ سنایا کرتے تھے۔
قاضی غفران الدین نے بائیس سال کی عمر میں شادی کی۔ ان کے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے متعدد تصانیف بھی لکھی ہیں جن میں بارہ سو عربی اشعار پر مبنی ایک شرح، حافظ الپوری کے دیوان کی شرح، عربی گرائمر کی شرح اور قرآن کی تفسیر بھی شامل ہیں جو سترہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ باچاصاحب اور والئی سوات کے دور حکمرانی کے حوالے سے قاضی غفران الدین کہتے ہیں کہ باچا صاحب کا دور رواجی تھا۔ اس میں تمام تر فیصلے رواج کے مطابق ہوا کرتے تھے، لیکن والئی سوات کا دور حکومت مکمل طور پر شرعی تھا جس میں تمام فیصلے شریعت کے مطابق ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ باچا صاحب کو انگریزی زبان نہیں آتی تھی، اس لئے انگریزوں کو میاں گل جہانزیب (والئی سوات )پسند تھے۔ ایک تو وہ تعلیم یافتہ اور دوسرا ان کو انگریزی زبان پر عبور حاصل تھی۔ انگریزوں نے ہی باچا صاحب کو کہا کہ اپنے بیٹے کے حق میں دستبردار ہو جائیں اور ان کو تخت نشین کرلیں۔والئی سوات کی تخت نشینی کے بعد باچا صاحب گوشہ نشین ہوئے جس کے بعد وہ قرآن اور تفاسیر کے مطالعہ میں موت تک مشغول رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے کے حالات کے حوالے سے قاضی غفران الدین کہتے ہیں کہ دہلی میں طالب علمی کے دوران میں مشہو ر اور اہم شخصیات سے ملاقات ہوا کرتی تھی جس میں جید علمائے کرام مولانا عبید اللہ سندھی، قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور خان لیاقت علی خان سمیت دیگر شامل ہیں۔ جب قاضی صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ہندو ستا ن کے بعض علمائے کرام پاکستان بنانے کے کیوں مخالف تھے، تو انہوں نے ایک ملاقات کا احوال ذکرکرتے ہوئے کہا کہ دہلی میں ایک مرتبہ قائداعظم مفتی کفایت اللہ سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ پاکستان کی حمایت کریں، ہم ایک اسلامی نظریاتی ملک بنانا چاہتے ہیں۔ تو مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ ایک بات پر ہم آپ کا ساتھ دے سکتے ہیں کہ آپ بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے کی بات چھوڑ دیں اور دہلی تک پاکستان بنانے کیلئے جدوجہد کریں، تو ہم آپ کا ساتھ دینگے۔ قائداعظم نے جواباً کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے بعد مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ ہمارا کانگریس کے رہنماؤں سے بات ہوئی ہے کہ انگریزوں کے بعد پانچ سال حکومت مسلمان اور پانچ سال ہندو کرینگے۔ اگر صدر ہندو ہوگا، تو وزیراعظم مسلمان ہوگا۔ اگر وزیر اعظم مسلمان ہوگا، تو صدر ہندو ہوگا۔ اس پر ہمارا اتفاق ہوگیا ہے جس کے جواب میں قائد اعظم نے کہا کہ اس کی کیا گارنٹی ہے اگر ہندو اپنی زباں سے مکر گیا تو۔۔۔؟ جس کے جواب میں مفتی کفایت اللہ نے کہا کہ ہم ان سے اقوام متحدہ میں ضمانت لے لیں گے اور اگر پھر بھی وہ مکر گئے، تو پھر ہم ہندو ں کیخلاف جہاد کا اعلان کرینگے۔ کیونکہ ہمارے پڑوس کے تمام ممالک مسلمان ہیں۔ قاضی غفران الدین کہتے ہیں کہ قائد اعظم نہیں مانے اور بات وہی پر ختم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال کی قدر اس وقت کے علمائے کرام بھی کرتے تھے۔ اس جیسے لائق انسان صدیوں میں پید اہوتے ہیں۔
ریاست سوات کے ادغام کے حوالے سے قاضی صاحب کہتے ہیں کہ ریاست سوات کو ختم کرنے میں اہم کردار یہاں کے نوابوں، خانوں اور ملکانانوں نے ادا کیا ہے۔ کیونکہ والئی سوات ہر کسی کو یکساں حقوق دینے اور انصاف پر مبنی فیصلے کیا کرتے تھے، جس کو بااثر لوگ برامانتے تھے۔ یہی لوگ تھے جو حکومت پاکستان سے باربار مطالبہ کرتے تھے کہ ریاست کا پاکستان میں ادغام کیا جائے۔ادغام کی باتیں جب شروع ہوئیں، تو والئی سوات کے پاس ایک وفد آیا کہ سوات کو پاکستان میں مدغم کرنے سے یہاں پر اسکول، کالج اور دیگر تعمیراتی کام زیادہ ہوجائیں گے۔ والی صاحب نے جواباً کہا کہ مردان پاکستان کا ایک ضلع ہے، اگر وہاں سوات سے زیادہ اسکول، کالج اور اسپتال ہوں، تو پھر ریاست کو پاکستان میں مدغم کیا جائے اور اگر نہیں تو پھر سوات کو ریاست رہنے دیں۔ لیکن مفاد پرست عناصر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔
ریاست سوات کے ادغام کے بعد کے حالات کے حوالے سے قاضی صاحب کہتے ہیں کہ جب ریاست ختم ہوگئی، تو سوات کا زوال شروع ہوگیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں والئی سوات سے ملنے گیا، تو وہ کافی پریشان تھے۔ والئی سوات نے مجھ سے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں نے سوات کی وہ خدمت نہیں کی جو میں کرنا چاہتا تھا۔ میں اس وادی کو سویٹزرلینڈ بنانا چاہتا تھا لیکن مہلت نہیں ملی۔
قاضی صاحب کے بقول والی صاحب گھنے جنگلات کو کٹتا دیکھ کر خون کے آنسو روتے رہے کہ اتنی محنت سے محفوظ کیا گیا جنگل کتنی بے دردی سے کاٹا جارہا ہے۔
قاضی غفران الدین اس دور کو اب بھی یاد کرکے کہتے ہیں کہ ریاست سوات کے دور کی کوکارئی سڑک اگر چہ کچی تھی، لیکن حالیہ سڑک سے ہزار گنا بہتر تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ والئی سوات سڑکوں کا معائنہ خود کرتے تھے۔ روزانہ کسی نہ کسی سڑک پر وہ سفر کرتے اور اگر سڑک خراب ہوتی، تو پھر متعلقہ جمعدار کی خیر نہیں ہوتی۔ اسی طرح صحت اور تعلیم کی سہولیات بھی بہترین تھیں۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اگر ریاست ختم نہ ہوتی، تو شائد آج ہم یورپ سے زیادہ ترقی یافتہ و مہذب ہوتے۔
3,134 total views, 2 views today