تحریر ؛۔ محمد طفیل
سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہتے ہہیں یہاں کی خوبصورت وادیاں دل کو خیرہ کردیتی ہیں، ان ہی وادیوں میں وادی شاہی باغ بھی ہے، جو کالام سے 25 کلومیٹر جبکہ اتروڑ وادی
سے 10کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے،اتروڑ ہی کے راستے شاہی باغ تک 30منٹ میں پہنچا جا تاہے،اتروڑ میں سلطان محمود غزنوی کی دور کی تاریخی نشانات اب بھی محفوظ ہیں، اتروڑ وادی کی ابادی ایک اندازے کے مطابق 35،000 ہیں اس وادی میں دو اقوام رہتے ہیں ، ایک کو گوجر جبکہ دوسری قوم کو غوری کہتے ہیں،دونوں اقوام مہمان نوازہیں، اس وادی کے لوگ سیاحوں کوسیاح نہیں بلکہ مہمان کہہ کر پکارتے ہیں۔
شاہی باغ اس پورے وادی میں اپنا ایک الگ مقام رکھتا ہے ۔ سیاح اس حسین وادی کو شاہی لوگوں کی جنت کہہ کر پکارتے ہیں،اس وادی میں مختلف قیمتی دہاتیں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں گرینائٹ،اور کرومائٹ کے پتھر شامل ہیں،.
اس جنت نظیر وادی کے مختلف اطراف میں مشہور پہاڑی درے بھی موجود ہیں جن میں لدودرہ،دیسان بانڈہ،شامل ہیں، ہر سال جون کے مہینے میں خانہ بدوش بھیڑ بکریوں کو تین ماہ چرانے کیلئے ان دروں کا رخ کرتے ہیں۔
شاہی باغ اتروڑ گائوں کے شمال مغرب میں واقع ہیں،اس وادی میں قدرتی جھیل اور خوبصورت درخت انکھوں کو خیرہ کردیتے ہیں،دریائے اتروڑ میں شاہی باغ کے مقام پر وافر مقدار میں سواتی ٹرائوٹ مچھلی کثرت سے پائی جاتی ہے،جبکہ سرسبز جنگلات،قدرتی چشمنے،بلند وبالا بر ف سے ڈھکے پہاڑوں کی چوٹیاں،اور خوبصورت جھیلیں اس وادی کی خوبصورتی کو دوبالا کردیتی ہے۔
اتروڑ تک پہنچنے والے سیاح اگر شاہی باغ کو نہیں دیکھیں گے تو شائد وہ جنت ارضی کو دیکھنے سے محروم رہ جائیں گے،اس وادی تک پہنچنے کیلئے سیاحوں کو اتروڑ یا کالام سے فور بائی فور جیپ لیکر انا ہوگا،شاہی باغ کو چاروں اطراف سے ندیوں نے گھیرا ہوا ہے،دور سے یہ وادی ایک خوبصورت جزیرہ دکھائی دیتا ہے،یہ وادی سطح سمندر سے 8450فٹ بلندی پر واقع ہے،شاہی باغ تک پہنچنے کیلئے واحد راستہ لکڑی کا پل ہے ،جس کے ذریعے یہ علاقہ اتروڑ وادی سے منسلک ہے یہ پورا علاقہ 10۔5ایکٹر رقبے پر مشتمل ہے،
شاہی باغ میں ہر سال موسم سرما میں برفانی تودے نیچے اتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے کے درخت جھکے ہوئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ درخت خدا کی بڑھائی بیان اورسربسجود ہوں ،سیاح ان علاقوں میں مچھلیان پکڑنے، خوبصورت وادی کو دیکھنے اور سرد موسم کو انجوائے کرنے کیلئے جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں بڑی تعداد میں اتے ہیں،
شاہی باغ کی سیر کرنے والے پشاورکا سیاح عبدالرحمان کہتا ہیں کہ اگر یہ وادی دنیا والوں کی نظروں میں آگئی تو شائد یہاں سیاحوں کو سالوں سال ٹکٹ لینے کیلئے انتظار کرنا پڑے ، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی حسین وادی نہیں دیکھی،مجھے افسوس ہے کہ اس علاقہ کی سڑکیں بہت زیادہ خراب ہیں، اگر یہ سڑکیں درست کی جائیں تو شائد کوئی سیاح کالام میں نہیں ٹھرے گا، وہ سیدھا شاہی باغ اگر دم لیگا، انہوں نے کہا کہ وادی مہوڈنڈ سے یہ جگہ ہزار ہابہتر اور خوبصورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہائکنگ، کیمپنگ کیلئے اس سے بہترین جگہ کوئی نہیں ہوسکتی۔
شاہی باغ کے راستے ایک خوبصورت ابشار بھی اتاہے جو 52 فٹ کی بلندی پر پہاڑی سے نیچے اتا دیکھ کر سیاحوں کے دل دھڑکنا بھول جاتے ہیں،ابشار کی تیز اواز دور دور تک سیاح محسوس کرتےہیں،ایسا لگتا ہے جیسے ابشار ہمارے ساتھ محوسفر ہوں،اس وادی کے رہنے والے لوگوں میں بیماری بہت کم ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہو بھی جاتا ہے تو وہ اپنا علاج علاقہ کے جھڑی بوٹیوں سے کرتے ہیں۔
اتروڑ وادی کے رہائشی احسان اللہ کہتے ہیں اگر صوبائی حکومت بحرین سے کالام اور کالام سے شاہی باغ تک سڑک مرمت کردیں تو بھی بڑی بات ہوگی اور سیاح کسی اور وادی کے انہی پہاڑی دروں، جزیروں اورباغوں کو ائیں گے، لیکن پچھلے پانچ سے جب سے سیلاب نے اپر سوات کی سڑکیں تباہ کی ہیں ان سڑکوں کو اچھی طریقےسے بحال اور پختہ نہیں کیا گیا ہے، اس کی وجہ سے اس علاقہ کی سیاحت اور روزگار پر بڑا برا اثر پڑا ہے،حکومت یہاں کے لوگوں کی روز اگر بحال کرنا چاہتی ہے تو کالام اور پھر کالام سے شاہی باغ تک سڑک پختہ کرے۔
لاہور سے انے والے ایک سیاح محمودسعید نے اس وادی کو دیکھنے کے بعد کہا کہ کاش میں یہاں پیدا ہوتا ، اتنی سکون، خوبصورتی اور رعنائی میں نےکبھی نہیں دیکھی، واقعی اس جگہ پر گماں ہوتا ہے جیسے یہ راجوں مہاراجوں، شاہوں، کا باغ ہوں، انہوں نے کہا کہ اس نفاست سے شائد قدرت نے کوئی جگہ نہیں بنائی ہوگی ۔بس حکومت سے ایک گزارش ہے کہ وہ یہاں کی سڑکیں درست کرے اوراس وادی تک پہنچنے کیلئے سیاحوں کو راغب کرے۔
وادی اتروڑ ،گبرال اور شاہی باغ کے لوگ اس امیدپر زندگی گزارنے رہے ہیں کہ کسی ایک وفاقی یا صوبائی حکومت کو اس علاقہ پر ترس ائیگا، اور یہاں پر بھی وہی تعمیراتی کام شروع ہونگے جو باقی پاکستان میں ہورہے ہیں،ہمارا یہ علاقہ ایک نہ ایک دن دنیا کی نظروں میں ائیگا، پھر سڑکیں ، پل بن جائیں گے ۔
3,534 total views, 2 views today