سات سمندر پار خصوصاً سعودی عرب، دوبئی اور برطانیہ وغیرہ جانے والے پیاروں سے بسا اوقات فون پر ایک ہی ملتا جلتا جملہ سماعت سے ٹکراتا رہتا ہے۔ ’’سہ سہ دے پکار دی‘‘ یعنی جو کچھ چاہیے مانگ لو۔
یہ جملہ اگر ابّو سے سنیں تو دل پھولے نہیں سماتا اور ہونا بھی چاہیے کہ ابّو تو ابّو ہے اور ابّو کا وعدہ ’’صوفی‘‘ کا وعدہ ہوتا ہے۔ جب بھی مانگیں بڑھ کر ملتا ہے۔ دوسرے نمبر پر بھائی ہونا چاہیے، کون سا بھائی؟ وہ بھائی جو ’’نکاح قبول ہے؟‘‘ کی گہری جھیل میں غوطہ نہ لگا چکا ہو یاجس نے ’’قبول ہے قبول ہے‘‘ کے ’’نعرۂ خفیف‘‘ کا ورد نہ کیا ہو۔ شادی شدہ بھائیوں سے بھی توقع کی جاسکتی ہے، ہاں البتہ بٹوارے کے بعد تو قسمت اور حکمت ہی ساتھ دے سکتی ہے۔۔۔ اسی طرح چچا اور ماموں تیسرے درجے کے مسافر ہیں۔ یہ حضرات بہ ذاتِ خود بہت سخی واقع ہوتے ہیں، لیکن اپنی ازدواجی زندگی کو ملحوظ خاطر رکھ کر آخری صف میں دکھائی دیتے ہیں۔ چوتھے درجے میں دوست کا تعین ہونا چاہیے۔ چاہے یہ ماضی بعید کا جگری دوست ہویا ماضی قریب یا حال کا۔ یہ حضرات جب بھی فون کرتے ہیں، اختتام پر محولہ بالاجملہ زبان مبارک پر ضرور لاتے ہیں۔ کچھ تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ اگر فون پر نہیں کہہ سکتے، تو مسیج کے ذریعے مانگ لو۔
ایسے حالات میں یعنی کہ جب کوئی کچھ نہ کچھ مانگنے کے لیے مجبور کرے، تو ہمیں یا آپ کو جلد بازی سے پرہیز کرنا ہوگا۔ ورنہ پوری کی پوری بازی ہارنے کے سوفی صد مواقع ہیں۔ ایسا کرنے کی بڑی وجہ صرف یہی ہے کہ جب بھی ان سے مانگا گیا، توپھر فوراً ہی یہ پیارے اپنی بات سے بھاگ جاتے ہیں۔ صرف بھاگ ہی نہیں جاتے بلکہ دم دبا کر بھاگا کرتے ہیں (ہا ہا ہا ہا) کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر کچھ مانگا گیا، تو پھر تو اس بات کی مکمل گارنٹی ہے کہ ہفتوں نہیں، ہاں! مہینوں تک ان سے بات کرنے کا شرف حاصل نہیں ہوگا۔
پچھلے سال اپنے ایک لنگوٹیے (جس کے ساتھ بچپن گزرا ، جوانی دیوانی کے ایام میں ایک ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہے،ایک ہی تھالی میں کھایا اور الگ الگ کپ میں چائے پی) کو دومختلف ممالک کو سرکاری خرچے پر ہم سے چھپ کے جانا نصیب ہوا۔۔۔ اس موقع پر یقیناًجب ہماری طرف سے ہمارے ماتھے نے اپنے وجود پر بل ڈال کر شکوہ کے طور پر عرض کیا کہ’’ توسی‘‘ ظالم نے جانے کی اطلاع دی نہ آنے کی خبر، یہ تو سراسر دوستی کی توہین ہے۔ تو صاحب نے ’’ماتھے پر الف کھینچتے ہوئے‘‘ مسکرا کر پرشکوہ انداز میں کہا: ’’یار تمھارا نمبر ڈی لیٹ ہوچکا تھا۔‘‘
مجھ جیسے یار کا نمبر ڈی لیٹ کرنا۔۔۔ بالکل کچھ پلے نہیں پڑ رہاتھا، پر چند لمحے بعد خود ہی ماتھا ٹنکاکہ جناب اصل میں’’سہ سہ دے پکار دی‘‘ چوں کہ نہیں کہا، اس لیے جھوٹ کے لیے مصنوعی پاؤں کا بندوست کر رہا تھا،جو بھلا کہاں ملنے والے تھے! واہ جی واہ۔۔۔
ہم مانتے ہیں تحفے سبھی کے لیے بھیجے نہیں جاسکتے، ہر ایک کی اپنی برادری یا خون کے رشتوں کی اتنی بڑی بڑی فہرستیں ہوتی ہیں کہ سب تک پہنچنا مشکل ہے۔پر ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر نہیں دے سکتے ہیں، تو پھر جھوٹے وعدے کرکے اپنے اکلوتے ملک کے راہ نماؤں یا کچھ اداروں کے سربراہوں کا لبادہ کیوں پہنا کرتے ہیں۔ جو وعدے تو کرتے ہیں پر۔۔۔ لہٰذا آسان طریقہ یہی ہے کہ جب بھی فون کر جائیں، خیر و عافیت پوچھ اور بس، ورنہ بس ہی چھوٹ جائے گی۔
المختصر،بڑے سوچ بچار کے بعدہم صرف اسی نتیجے پر پہنچنے میں کام یاب ہوئے ہیں کہ جس جس سے کہا جاتا ہے کہ’’سہ سہ دے پکار دی‘‘ کیا کہیں وہ لفظ تانیث ’’خیراتن‘‘ کا کہی ’’تذکیر‘‘ تو نہیں کہ جو کہتے پھرے کہ فلاں فلاں چیزیں درکار ہیں۔ چلیں ہم ضدی صحیح، لیکن فیصلہ کون کرے گا کہ یہ ’’مانگنا‘‘کیا ہم جیسوں کو زیب دے گا؟۔۔۔ آپ ہی فیصلہ کیجیے، کیا کر�ۂارض پر کوئی ایسا انسان موجود ہے، جس کی کوئی خو اہش نہ ہو؟ اور اگر کسی نے ثابت کیا، تو جان لیں کہ وہ انسان تو ہے مگر ABNORMAL ۔
بھئی، ہمارا تو یہی نظریہ ہے کہ جو بھیجنے کا ارادہ کرتے ہیں، وہ پوچھتے نہیں۔اس لیے کہ ’’جو گرجتے ہیں، وہ کاہے کو برستے ہیں۔‘‘دوسری بات یہ ہے کہ کیا تحفہ مانگا جاتا ہے کہ پیش کیا جاتا ہے؟ جو مانگا جاتا ہے، وہ تحفہ نہیں حق کہلاتا ہے یا اسے خیرات، صدقہ، عشر، زکواۃ اور ہدیہ کے ناموں سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ تحفہ تومحبت، دوستی اور خلوص کی علامتوں میں سے ہے۔ اس کی قیمت نہیں، دینے والے کی نیت دیکھی جاتی ہے۔ رشتوں کو بے شک تحفوں کے بل بوتے پر قائم رکھا جاسکتا ہے، جب کہ مانگنا۔۔۔ مانگنے کا سیم و تھور اس کو نیست و نابود کرسکتا ہے۔۔۔ احتیاط کیجیے۔۔۔احتیاط واحد علاج ہے۔۔۔
1,130 total views, 2 views today