با وجود یہ کہ صبح صادق اور صبح کاذب کا ذکر سنا ضرور ہے، لیکن دونوں کے بیچ فرق ہمیں معلوم نہیں۔ کیوں کہ ہم ’’کالعدم‘ ‘ ہوتے ہیں، تو رات گئی گزری ہوتی ہے اور ’’فی العدم‘‘ میں لائے جاتے ہیں، تو اوقاتِ صادق اور کاذب دونوں کوچ کر چکے ہوتے ہیں اور پہلا پہر جلوہ گر ہو رہا ہوتا ہے۔
خیر، وقت جو بھی ہو ہمیں بڑے باد شاہی انداز میں بڑے تپاک اور ’’بھگت‘‘ کے ساتھ بستر سے برآمد کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا کہ ہم نے یہ ذمے داری ایک خاتون کو کنٹریکٹ پر ’’آوٹ سورس‘‘ کی ہے۔ اس خاتون کو جوانی میں میرے والدین نے میرے ’’پُر زور‘‘ اصرار پر ’’آدھے تولے سونے چڑھے چاندی‘‘ کے چکاچوند میں ورغلا کر، بہلا پھسلا کر شرعی طور پر میرے واسطے ’’اسنیچ‘‘ کیا تھا، ویسے یہاں لفظ ’’اسنیچ‘‘ کی بجائے ’’گریب‘‘ پڑھا جائے، تو زیادہ ’’گریس فُل‘‘ ہوگا ۔ وہ جب ہمارے ’’خانہ پدرانہ‘ ‘ میں لائی گئی، تو پورے ہاؤس کی ’’چیئرپرسن‘‘ اور بیڈ روم میں ہماری ’’پڑوس پرسن‘‘ بنی۔ مختصر عرصے میں پروموشن کرتی ہوئی ہماری یہ ’’مقبوضہ خاتون‘‘ جلد ہی ہماری ’’لائف‘‘ اور پراپرٹی میں ’’پرو پرائٹریس‘‘ کے عہدہ پر سرفراز ہوئی اور یوں این جی اوز کے جینڈر بیلنس کے تقاضے ’’بہ قضائے الٰہی‘‘ پورے ہوئے۔ یہ پارٹنر شپ کام یابی کے جھنڈے گاڑے بغیر پہلی سلور جوبلی کے بعد کچھ عرصہ کے لیے منجمد ہوئی اور پھر زوال پزیر ہوتے ہوتے ’’باورچن شپ‘ ‘ پر ’’منہدم‘‘ ہوئی۔ گھر میں ایڈیشنل کمرہ بنایا گیا، تو ہم نے اُن کو اس پر قبضہ کرنے کا ’’دانستہ‘‘ مشورہ دیا اور مختصر لے دے کے بعد انھوں نے نئے کمرہ میں’’اِنٹرنلی ڈسپلیس‘‘ ہونے کی حامی بھری۔ اس معاملہ پر جو مختصر لے دے ہوئی تھی، وہ ایک سوشل کنٹریکٹ کے ’’ایم او یو‘ ‘ پر ہوئی تھی،جس کے تحت روٹین کی شقوں کے علاوہ ہمیں جگانے کی ذمے داری کا شق بھی اُس کے سماجی اور رواجی ذمے داریوں میں شامل کیا گیا، جس کو تسلیم کرنے کے بعد اب باقاعدگی کے ساتھ وہ صبح صبح ہمیں ’’بسترِ استراحت‘‘ سے اُٹھانے اور نماز ی وپرہیزگار بنانے کی حسرت دل میں لیے ’’ناظر‘‘ ہوتی ہے۔ پیار سے کمرے کا دروازہ کھولتی ہے، تین چار مرتبہ محبت بھرے ’’نِک نیم‘‘ سے پکارتی ہے۔ ہم کبھی ’’مزاحمتِ عارفانہ‘‘ فرماتے ہیں کبھی’’تساہلِ عارفانہ‘‘۔ ہم خصوصی طور پر سویرے اُٹھنے سے اور خاص کر نماز پڑھنے سے پرہیز کرنے کے لیے خود پر ایک ’’سیلف امپوزڈ‘‘ بیماری طاری کر تے ہیں۔ بیماری خود پر ’’امپوز‘‘ کرنے کا گُر تب سیکھا، جب پچھلے جاڑے میں ’’جان بہ کمر‘‘ ہوئے۔ درد شناس افرادجانتے ہیں کہ یہ بیماری اتنی جاں بہ لب نہیں ہوتی جتنی’’کمر بہ لب‘‘ ہوتی ہے اور جتنی ’’جاں بہ جیب‘‘ ہوتی ہے۔ یاد رہے ’’جاں بہ جیب‘‘ وہ حالت ہوتی ہے، جب بیمار کی جاں کا رشتہ جہاں سے جوڑنے کے لیے جیب میں جناح کی جاری کی ہوئی ’’پونجی‘‘ موجود ہو۔ تو اس بیماری کے تحت، جو بادی النظر میں موجود نہیں، صبح کے وقت فرشی چارپائی میں پڑے پڑے پھیپھڑوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک درد بھری آہ ’’جینیریٹ‘‘ ہوتی ہے، جو ٹہلتی ٹہلتی ’’تھروٹ‘‘ کی طرف ٹریول کرتی ہے۔ ’’تھروٹ‘ ‘ میں کچھ دیر ٹھہر کر مزید ’’درد آلود‘‘ ہوتی ہے، مزید ’’مجتمع‘‘ ہوتی ہے۔ پھر یک مشت منھ کے ذریعے نکلتی ہے، تو اس کی کیمسٹری، فزکس میں ’’کنورٹ‘‘ ہوئی ہوتی ہے اور بے تکا، بے ڈنگا سا اور درد میں لپٹا سا ’’ اوں، ہوں اور اُووف‘‘ بن کر ’’ایگزٹ‘‘ کرتی ہے ،جس کو سن کر اس خاتون خانہ کی سانس ’’نان کنفرمڈ‘‘ ایئر ٹکٹ کی طرح’’چانس‘‘ پر چلی جاتی ہے۔ ہم ’’آہ‘‘ والے نسخے کو تیر بہ ہدف پاتے ہیں، تو آہ و بکا شروع کرتے ہیں۔ ہماری ایکٹنگ کے جواب میں وہ میرے پاؤں کے نزدیک گیس کا ہیٹر یوں جلا کر رکھ دیتی ہے کہ ’’شعلہ جلے پر گیس نہ جلے‘‘۔ کہتی ہے: ’’گیس جلنے سے تو بہتر ہے،آدمی کا دل جلے۔ یہ تو پیسے جلانے کے مترادف معاملہ ہے۔‘‘ گیس جلانے کے احساس سے معمور کرتے ہوئے کمبل میں میری مکمل ’’پاؤں بندی‘‘ کی جاتی ہے۔ صلوٰۃِفرض کا قرض اُتارنے سے قبل‘ نفلوں کی ادائیگی کا کورس بڑے اہتمام کے ساتھ مکمل کرتی ہے۔ ان نوافل میں صلوٰۃِحاجات بہ طورِ خاص شامل ہوتی ہیں، نماز سے فارغ ہوتی ہیں، تو دُعاؤں کے ’’ڈسکورس‘‘ کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔پھر جائے نماز کو کمرے کی حدودِ اربعہ میں ایسی جگہ حالتِ انتظار میں رکھ چھوڑتی ہے، تاکہ ہم جب بھی اُٹھیں، تو اس (جائے نماز) کو ڈھونڈنے میں ہمیں کسی بھی قسم کا ’’دقیق سی دقت‘‘ نہ ہو اور ہمیں اس کو کسی صورت ’’اگنور‘‘ کرنا ممکن نہ ہو۔ میں کمبل کے کسی کونے کھدرے میں ایک کھلی، ایک بند آنکھ کے ذریعے کمرے کا جائزہ لیتا ہوں، تو جائے نماز کو اپنے استقبال کے لئے ’’ایورریڈی‘‘ پاتا ہوں۔ گویا کہہ رہا ہو کہ ’’نماز نیند سے بہترہے۔‘‘ ہم ایک مزید لمبی ’’آہ‘‘ بھر کر منھ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔پھر یہ عورت ہمارے ’’پیر ہانے‘‘ بیٹھ جاتی ہے۔ انگشتِ شہادت کے ساتھ ’’لیپٹی الیکٹرانک کاؤنٹر‘‘ پر انگوٹھا رکھ دیتی ہیں اورناپ تول کے ساتھ ذکر شروع کرتی ہے، ہم پر وقفے وقفے کے ساتھ پھونکتی ہے، بیچ میں پوچھتی ہیں، دردکچھ کم ہوا؟ ہم اپنی مرضی آپ کے تحت’’اوں یا آ ں‘‘ میں جواب دیتے ہیں۔ جواب دہی کے عمل میں ہم خواہ مخواہ بنیاد پرست واقع ہوئے ہیں۔ لہٰذا جواب، ’’گزشتہ سے پیوستہ‘‘ انداز میں دیتے ہیں۔پھر وہ ہمارے بے گناہ پاؤں کو اُلٹاتی ہے، ’’پلٹاتی‘‘ ہے، پھڑکاتی ہے، ان کو تحریک دینے کے کئی کرتب آزما تی ہے۔ زیادہ سے زیادہ کرتبوں سے استفادہ کے حصول کے لیے ہم کئی دفعہ اپنے ٹھیک ٹھاک چلتے ہوئے جاں کو نیم جاں سا اور کبھی انجان سا کروانے میں ’’تجاہلِ عارفانہ‘‘ سے کام نہیں لیتے۔ کچھ ہی دیر میں ہم بندآنکھوں سے جائے نماز کے اوپر سے ’’وضو روم‘‘ تک چھلانگ لگانے میں کام یاب ہو جاتے ہیں اور نماز کی تیاری کرتے ہیں۔ کیوں کہ اس کا ’’لانگ ٹرم‘‘ ثواب ہو نہ ہو، فوری ثواب کا پھل گرما گرم پراٹھے اور فرائی انڈے کی صورت میں مل جاتا ہے۔ نشاستہ دار ناشتے کے دوران میں ہم بیماری بھول کر ٹھیک ہو جاتے ہیں اور گُڑ کی چائے کے دو کپ حلق میں اُنڈیل کر فوری طور پر آہ بھرتے ہیں اور بسترمیں روپوش ہو جاتے ہیں۔ دس بجے ہم آنکھوں کو نیم باز کرکے کھولتے اور بند کرکے پکڑے جاتے ہیں۔ موسم کا پوچھتے ہیں۔ دل باہر نکلنے کا ہو، تو ٹھیک ہو جاتے ہیں ورنہ کسی مرچیلی چیز پکانے کا آرڈر دے کر ’’کمبل پوش‘‘ ہو جاتے ہیں۔ ہم نے خود کو کم شوگر کا ’’پیشنٹ‘‘ بھی ڈیکلیئر کر وایا ہوا ہے، لہٰذا کوئی میٹھی چیزکا نام لیں اور وہ ہمیں فوری ’’پرووائیڈ‘‘ نہ ہو، تو اس پر ہم قتل مقاتلے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔
ٍ ایک وقت تھا کہ ہماری دھمکی دل پزیر سی ہوتی تھی لیکن یہ عورت جو میرے گھریلو معا ملات ’’واچ‘‘ کرنے کی شرعی طور پر ذمے دار ہے، بتاتی ہے کہ اب اپنا غصہ بڑے غیض و غضب کا ہوتا ہے۔۔۔ دھمکی کے فوری بعد دکھاوے کے لیے بلڈ پریشر کی گولی طلب کرکے حلق کی طرف دھکیلنے کا بہ آوازِ بلند ڈھونگ رچاتے ہیں، تو ہماری آوبھگت کا ریٹ امریکن ڈالر کی طرح ’’سکائے ہائی‘‘ ہو جاتا ہے۔۔۔
ہمیں اب چچا غالبؔ کے شعر کو ٹھیک کرنا پڑ گیا ہے، کیااس کو اپنے نام سے اور اپنی اوقات سے عارضی طور پر منسوب کرنے میں کوئی قباحت ہے؟
تنگ دستی اگر نہ ہو زاہدؔ
بیماری ہزار نعمت ہے
بعض لوگ صبح اُٹھنے کے لیے موبائل کی گھنٹی سے کام چلا تے ہیں، کوئی اذانِ فجر کا ’’سورس‘‘ استعمال کرتا ہے۔ کئی خود کو ’’نیچر‘‘ کے نرغے میں چھوڑتے ہیں، غرض جتنے لوگ اتنے جاگنے کے اسٹائلز۔
وی وی آئی پیزکی طرح صبح اُٹھنے کے طور طریقے اور ناز و نخرے ہمارے بھی نرالے ہوتے ہیں۔ آپ نے سنا ہوگا اور اگر نہیں سنا، تو اب سن لیں کہ بڑے لوگوں کو جگانے کے لیے مخصوص وقت میں خصوصی راگ الاپے جاتے ہیں، جس کے لیے درجنوں لوگ ’’آن رول‘‘ ہوتے ہیں۔ ڈھول سرنے اور بینڈ باجے بجتے ہیں، تو صاحب بہادر جاگ اُٹھتے ہیں۔ ہمارا بھی ایک ’’وکرا‘‘ اور منفرد اسٹائل ہے ۔
صبح صادق اور صبح کاذب کا ذکر سنا ضرور ہے، اب دونوں کے بیچ فرق کیا ہوتا ہے؟ معلوم نہیں۔ ان اوقات کی کیفیات کبھی بہ چشم خود دیکھے ہیں، نہ کبھی بہ چشم غیر۔ ہم ’’خوابِ بستراہت‘ ‘ سے جب برسرِ پیکار ہوتے ہیں، جب رات گئی گزری ہوتی ہے اور تب ’’سر بہ سرکار‘‘ ہوتے ہیں، جب صبح گئی گزری ہوتی ہے۔ گئے گزرے سویرے کا حالیہ سانحہ ہے۔ گھر کی رانی نے اشاروں کی زبان میں تذکرہ کیا کہ آج کچن چیک لسٹ میں چاول چکن کی باری ہے جس کا انتظام ’’پتنی‘‘ کی نہیں ’’پتنے‘‘ کی ’’معمولانہ‘‘ ذمے داری ہے۔ یاد رہے، میں خود کو گھر کا ’’رانا‘‘ مانتا ہوں پر بیوی باورچی خانے کا بھیدی سمجھتی ہے، جس کا ’’لنکا ڈھانا‘‘ شریفانہ عمل نہیں ہے۔ اس لیے مزید تفسیر یا تبصرے کا جواز نہیں بنتا۔ پھر یہ کلام مولوی بہ زبان مولوی کے غیر تحریر کردہ ’’ایم او یو‘‘ میں امور شوہری کے شق ایک کے تحت میرے طے شدہ فرائض منصبی کا ڈی کلیئرڈ حصہ ہے، جس میں چوں و چراں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تجاہل عارفانہ کی بھی ’’آلائش‘‘ نہیں ہے، انکار ’’قابل دست اندازی سسرالہ‘‘ بھی ہے اور قابل ’’مستوجب‘‘ سزائے ننیالہ بھی۔
میں نے مرغی کی خریداری کے لیے دکان کی طرف رخت سفر باندھنے کی نیت باندھی جو ایک دو کلمے یاد ہیں، ان کو اپنے آپ پر پھونک دیے کہ ’’مملکت ہذا‘‘ میں انتخابات کا موسم ہے، ایسے میں بازار نکلنا ’’آ بم مجھے مار‘‘ والی بات ہے۔ مجھے جام شہادت نوش کرنے کی زیادہ جلدی نہیں۔ اس لیے حرکات و سکنات سے مستقل پرہیز کرتا ہوں۔سوائے شیف کے خصوصی ذمے داریوں کے، آخر شف شف کا فائدہ سیدھا سادہ شفتالو کہا جائے، تو روح کو قرار آجائے۔ میرے بچوں کا گھر جس میں،مَیں بھی مع بیوی عارضی نقل مکانی کے اصول کے تحت آباد ہوں، ’’بستی ہذا‘‘ کی واحد ’’بین الامحلاتی گلی‘‘ کے نکڑ پر واقع ہے۔ ہمارے گاؤں کے لیے بہ ظاہر اس کا اسٹیٹس گوادر جتنا ’’ویلیوایبل‘‘ ہے، جس کی زیادہ تشہیر نہ ہو جائے، ورنہ امریکہ سے ہمیں کون بچائے گا۔
974 total views, 2 views today