پرسوں کی اشاعت میں مذکورہ بالا کالم کا اختتام چچا غالب کے شعر پر ہو جاتا ہے، یعنی
تنگ دستی اگر نہ ہو زاہدؔ
بیماری ہزار نعمت ہے
اور بس۔
اس شعرکے بعد چند بے ربط اور بے ترتیب جملوں کا جو مکسچر چھپا ہے، وہ اس کالم کا حصہ نہ سمجھا جائے، بلکہ ردی کا ٹھوکرا سمجھا جائے۔ کیوں کہ وہ جملے کالم کے لیے لکھے گئے خام مواد کا وہ حصہ تھے، جو ’’ڈس کارڈ‘‘ کیے گئے تھے لیکن ہم سے ڈیلیٹ نہ کیے جا سکے۔ در اصل یہ کالم میں نے امجد علی سحابؔ کو ’’ری ویو‘‘ کے لیے بھیجا تھا اور ساتھ واضح تاکید کی تھی کہ اس کو شائع کرنے سے پہلے باہمی مشورہ ناگزیر ہوگا۔ وہ ای میل میں میری لکھی گئی تاکید سے انحراف کر گئے ہیں اور جو ’’کچھا ‘‘ ہم اپنا کر گئے تھے، سحابؔ بغیر ڈکار کے ہضم بھی کر گئے۔ ہمارا ماننا ہو یا نہ ہو، کئی پڑھنے والوں کا ماننا ہے کہ یہ حرکت اُس نے ’’عمداً‘‘ کی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ کسی ’’قصداً عمل‘‘ کی مفت میں تلافی ہو سکتی ہے لیکن ’’عمل عمد‘‘کی صورت میں مقدمہ درج کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا، سوائے ایک چارے کے۔ وہ ہے دوستوں سمیت ہماری پیٹ پوجا کا انتظام کرنا۔صحاب پر لازم ہے کہ ’’پروپوزڈ پیٹ پوجا ہذا‘‘ کی صف میں ’’متوقع‘‘ اکابرین ومتعلقین حضرات سے فوری التجا کریں، سماجت کریں کہ اس دانستہ وقوعہ میں صلح کے عمل کو بکرے کے ’’ذبیحہ‘‘ پر منتج ہونے سے پہلے مرغی کی قربانی پر ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالیں۔ ہم اپنی طرف سے’’قائمہ کمیٹی‘‘ سوری، ’’مذاکرہ کمیٹی‘‘ کے لیے کسی کو بھی ممبر ’’ڈی کلیئر‘‘ کرنے پر تیار ہیں، سوائے ’’راہیؔ و شاہ جی‘‘ وغیرہ ٹائپ کے لوگوں کے، جن پر ہم کسی قسم کا اعتماد نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ وہ سازشی عناصر کےُ سرخیل ہیں اور میرے ساتھ اُن کی ’’بغض معاویہ‘‘ قسم کی دشمنی چل رہی ہے اور وہ مجھ پر کسی قسم کا لفاظی و حیاتیاتی حملہ کرنے کے لیے بے تاب بیٹھے ہیں۔
اشاعت شدہ کالم کو غیر متوقع طور پر تمام عیبوں سمیت قرطاس پر ’’پھلتا پھولتا‘‘ پڑھ کر ہم نے غیر وجدانی کیفیت میں اسے ’’راول پنڈی سازش کیس‘ ‘ (آر ایس کے) کے پیٹرن پر پلان کیا ہوا ایک پروجیکٹ پایا اور کڑی سے کڑیاں ملاتے ہوئے وقتی طور پر اس حتمی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس ’’کالم سازش کیس‘‘ (کے ایس کے) میں، جن دو بندوں کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، کی ’’اِن والومنٹ‘‘ ہو سکتی ہے، ایسا ہونے کا شائبہ ہو سکتا ہے یا اس گہری سازش کے تانے بانے کہیں نہ کہیں ان سے مل سکتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے کے لیے سحابؔ کا میل ہیک کیا گیا ہو، ان کو ’’ٹیرارائز‘‘ کیا گیا ہو یا سبز باغ دکھائے گئے ہوں یا یہ بات بھی بعید از امکان نہیں کہ اس شخص کو ’’ہپنٹا ٹائز‘‘ کیا گیا ہو۔ بعض تعلق دشمن لوگوں سے کسی بھی قسم کے اقدام کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا یہ دونوں اصحاب کسی فریق کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل نہیں کیے جا سکیں گے۔ مذاکرات کا ڈول ڈالنے اور اسے با مقصد بنانے کے لیے سحابؔ کو ایک کام کرنا ہوگا، وہ فوری طور پر اشاعت شدہ کالم کو دوبارہ پڑھ کر اس کے پیٹ میں قید غیر متعلقہ جملوں کو فوری طور رہا کر دیں۔ دوسرا کام ان لوگوں نے کرنا ہے، جو یہ کالم آخر تک پڑھنے کا قانونی ارتکاب کر چکے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جو آپ پڑھ گئے ہیں، وہ نہ پڑھا ہوا سمجھا جائے۔ تیسرا کام ظاہر ہے، تاریخ دانوں کے لیے ہے کہ مخفی و ظاہری قوتوں کی اس حرکت کو’’کالم سازش کیس‘ ‘کے طور تاریخ کا حصہ بنانے پر غور کیا جائے۔ ان تین شرائط کے بعد ہی مذاکرات کا بینڈ بجایا جا سکتا ہے، تب تک اس بینڈ کے بجانے کے بجائے صرف’’مذاکرات کھیلیں‘ ‘ کا بینڈ بجانے پر بھی ہم راضی بہ رضا ہیں۔
کرکے ایک دوسرے سے عہدِ وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم
1,018 total views, 2 views today