تحریر:۔ فضل خا لق خان
سوات کا نام لبو ں پر آتے ہی ذہن میں جنت ارضی کا ایک خوبصورت تصور جاگزیں ہوجاتا ہے ، سوات جسے پاکستان کا سوئٹزر لینڈ بھی کہا جاتا ہے اپنی مخصوص جغرافیائی حالات کی وجہ سے ہر دور میں خا ص رہا ہے ۔آج ہم یہاں پر اس کے ایک عجیب وغریب گاؤں’’سپل بانڈئی‘‘ کا ذکر کریں گے جس کی آبادی تقریباً سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے، جہاں تقریباًسات سو گھر آباد ہیں اور جو سب کے سب ایک ہی دادا کی اولاد ہونے کے ناتے ایک ہی خاندان ہے۔’’سپل بانڈئی‘‘ ماضی کی روایات کا امین گاؤں ہے جہاں آج بھی اخوت ویک جہتی
کے مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں ،
سات ہزار نفوس پر مشتمل ایک ہی خاندان کا گاؤں جس میں ایک ہی مسجد ہے جس میں پورے گاؤں کے لوگ ایک ہی وقت میں ایک ہی امام کے پیچھے اپنے رب کے آگے سر بسجو د ہوتے ہیں(مسجد کی امامت بھی پشت درپشت ایک ہی خاندان سے چلی آرہی ہے)۔سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے جنو ب کی جانب واقع دارالخلافہ سیدوشریف سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس سرسبز وشاداب گاؤں ’’ سپل بانڈئی‘‘ جس کے نام کے بارے میں گاؤں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ اس کے معنی ہے’’ سکون کی وادء‘‘اس گاؤں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک پہاڑ ی کے درمیان میں واقع ہے جس کے چاروں ا طراف خوبصورت کھیت اور قدرتی پانی کے نالے بہتے ہیں ،جو اپنی جگہ ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتے ہیں۔
سپل بانڈئی سے تعلق رکھنے والے انجینئر شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق اس گاؤں کو محمود غزنوی کی افغان فوج سے قبل بدھ اور ہندوؤں نے آباد کیا تھا جس کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی بنتی ہے کیونکہ یہاں پر ان کے آثار بھی پائے جاتے ہیں لیکن گاؤں کی موجودہ خدوخال ظاہر کرتے ہیں کہ اس کو محمود غزنوی کی افغان فوجیوں نے بعد میں باقاعدہ طورپر ہی آباد کیا ہے ۔ سوات میں بد ھ اورہندو ادوار کے ناموں پر مشتمل گاؤں اب بھی موجود ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ جس گاؤں کے نام کی آخر میں گرام آتا ہے انہیں بدھ مذہب کے لوگوں نے آباد کیا تھا جیسا کہ اوڈیگرام ، بلوگرام ،پنجی گرام،نجی گرام وغیرہ اسی طرح جن علاقوں کی نام کے آخر میں ’’پور‘‘ آتا ہے وہ علاقے ہندوؤں کے آبادکردہ ہیں جیسا کہ اسلام پور ، فتح پوراور شاہ پور وغیرہ لیکن جن گاؤں کی نام کے آخر میں بانڈئی آتا ہے انہیں پختونوں نے ہی آباد کیا ہوا ہوتا ہے جیسے برہ بانڈئی ، کوزہ بانڈئی ،توتانوبانڈئی اور سپل بانڈئی ۔ اسی تحقیق کی روشنی میں وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ گاؤں’’ سپل بانڈئی‘‘ کو بھی پختونوں نے ہی آباد کیا ہوا ہے ۔
سپل بانڈئی کی رہائشیوں کے بارے میں مزید تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ محمود غزنوی کی فوج میں ایک شخص جس کا نام شیخ سعدی بتایا جاتا ہے اور جو نسلاً ترک تھا کو یہ گاؤں حصے میں ملا اور اس کا ایک پوتا اخوند درویزہ جو بعد میں ایک بڑا عالم بنا اور اس گاؤں کے لوگوں نے اسے ولی کا درجہ دیا ہواتھا( اس کا مزار اب بھی پشاور کے علاقے میں مرجع خلائق ہے )۔اسی اخوند درویز ہ بابا کے تین پوتوں نے اس گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا اور انہی میں سے ایک پوتے میاں دولت بابا کی اولاد نے سپل بانڈئی کو آباد کیا ۔ میاں دولت بابا کی اولاد جن کی تعداد کم وبیش سات ہزار نفوس پر مشتمل ہے اسی سپل بانڈئی گاؤں میں آج بھی آباد ہیں۔پورے دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ گاؤں سپل بانڈئی پاکستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں ایک ہی خاندان آباد ہے پور اگاؤں ایک ہی دادا اخوند درویزہ بابا کے تین پوتوں کی اولاد ہیں جو ’’برٹل میاں گان‘‘’’کوز خونہ میاں گان‘‘اور بنڑ میاں گان کے ناموں
سے مشہور ہیں۔
سوات کے دیگر علاقوں میں ہر محلے کی سطح پر ایک مسجد ضرور ہوا کرتی ہے اور بعض جگہ پر ایک ہی محلے میں کئی کئی مساجد بھی دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن یہ یقینی طورپر پورے پاکستان کی سطح پرایک ایسا گاؤں ہے جہاں سات ہزار کی آبادی کے لئے ایک ہی مسجد قائم ہے جس کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اس کی موجودہ خدو خال 315 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ (یہ اپنی جگہ ایک تاریخی مسجد ہے جس پر کسی اور موقع پر تفصیلاً بات کی جائے گی) یہاں گاؤں کے لوگ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں ،جو اس گاؤں کے لوگوں کی اخوت اور یک جہتی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے ۔ یہ مسجد پورے گاؤں سے یکساں فاصلے پر واقع ہے اور اس میں داخل ہونے کیلئے تین اطراف سے دروازے رکھے گئے ہیں تاکہ لوگوں کو آنے جانے میں سہولت ہو ۔ اس گاؤں کے چاروں اطراف خوبصورت اور سرسبز وشاداب پہاڑ ہیں جو قدرت کی صناعی کے شاہکار ہیں اوران کے خوبصورت نظارے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔یہاں کی بزرگوں کا کہنا ہے کہ پرانے زمانے میں اس گاؤں کے ارد گرد ایک فصیل بھی تھی جو حوادثِ زمانہ سے معدوم ہوچکی ہے ۔یہاں کے بچے اب بھی روائتی کھیل’’ گلی ڈنڈااور سخے‘‘ کھیلتے ہیں،
اس گاؤں میں شرح خواندگی بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ یعنی تقریباً اسی فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ سپل بانڈئی کا ہر باسی کسی نہ کسی حد تک پڑھا لکھا ہے ۔ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یہاں لڑکوں کے لئے مڈل جبکہ لڑکیوں کے لئے ہائی اسکول تک قائم ہیں جبکہ نجی سطح پر ایک انگلش میڈیم اسکول بھی علاقے کے بچوں کو زیور تعلیم سے آشنا کرنے کے لئے موجود ہے ۔گاؤں سپل بانڈئی کے بیشتر لوگ سرکاری ملازمتوں بالخصوص پولیس کی نوکری سے وابستہ ہیں لیکن اکثر لوگ ملک سے باہر بھی ملازمتیں کرکے ملک وقوم کا نام روشن کررہے ہیں۔گاؤں کی خواتین اب بھی روائتی چرخہ کاتتی ہیں اور بھیڑ بکریوں کے اون سے دھاگہ بناتی ہیں جس سے اس گاؤں سے ملحقہ گاؤں اسلام پور کے ماہر کاریگر دیدہ زیب گرم چادریں ،کمبل، روائتی ٹوپی اور ویسٹ کوٹ کے لئے کپڑا بناتے ہیں جویہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ بھی بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں کے بعض باسی کھیتی باڑی سے بھی منسلک ہیں اور مقامی سطح پر کاشت کاری کرکے زندگی کی گاڑی کو رواں رکھے ہوئے ہیں۔ اس گاؤں میں ایک بہت پرانا قبرستان بھی موجود ہے جس میں زیتون کے درخت موجود ہیں جن کے بارے میں یہی مشہور ہے کہ ایک درخت کو جوا ن ہونے میں پانچ سو سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے جبکہ اس میں موجود درخت اب سوکھ کر گرنے کے قریب ہوچکے ہیں جس پر یہی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس گاؤں کو آباد ہوئے کئی سو سال بلکہ ایک ہزار سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ یہاں اب بھی روائتی طریقوں سے مکئی اور گندم کا آٹا تیار کیا جاتا ہے جس سے گھروں میں خواتین لذیذروٹیاں بناتی ہیں خاص طورپر مکئی کی روٹی جسے صبح کے وقت ناشتے کے طورپر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔ ایک معمر خاتون روخانہ بی بی جو روائتی چرخہ سے اون کا دھاگہ بنانے میں مصروف تھی نے ’’سوات نیوز ڈاٹ کام‘‘ کو بتایا کہ وہ اپنی بچپن سے یہی کام کرتی آرہی ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے گھر کے مردوں کا ہاتھ بٹھا کر آمدنی بڑھاتی ہے ۔ الغرض گاؤں سپل بانڈئی سوات کی سرزمین پر صدیوں کی تاریخ اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے جہاں اس پر رہنے والے ایک ہی خاندان کے افراد پورے پاکستان کے لئے ایک مثالی اور جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں اس گاؤں میں اب بھی پرانے زمانے کی عمارات اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ موجود ہیں جنہیں دیکھ کر انسان یقینی طورپر کچھ دیر کے لئے ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے لگتا ہے اس گاؤں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ریاست سوات کے حکمران کا بنایا ہوا محل وائٹ پیلس بھی موجود ہے جسے دیکھنے کے لئے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں سیاح سوات کا رُخ کرتے ہیں اور یہاں پر موجود قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
2,230 total views, 2 views today