تحریر: عدنان باچا
سوات میں دہشت گردی کے دوران صحافی قاری شعیب سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے تھے ۔ قاری شعیب کے قتل کی ایف آئی آر درج ہو سکی اور نا ہی تحقیقات کرائی گئی۔
قاری محمد شعیب کا قتل
دس سال قبل 9 نومبر 2008 کو صحافی قاری محمد شعیب اپنی بیٹی کو اسپتال میں داخل کرواکر واپس گھر جا رہے تھے کہ ائیرپورٹ روڈ پر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے اُن کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا اور موقع پر ہی اُن کی موت واقع ہوئی ۔
میڈٰیا رپورٹس کے مطابق قاری محمد شعیب کی لاش کو سیکورٹی اہلکار اپنی گاڑی میں سرکٹ ہاؤس لے گئے تھے اور پھر وہاں سے میڈٰیا کے نمائندوں نے لاش اہلخانہ کے حوالے کردی تھی ۔
قاری محمد شعیب کے بھائی بختیار خان نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسپتال میں موجود تھے کہ شام کے وقت ایک سیکورٹی اہلکار نے انہیں کال کی اور کہا کہ تمہارے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور وہ سرکٹ ہاؤس میں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” جب میں وہاں پہنچا تو پہلے مجھے دلاسہ دیا گیا اور بعد میں مجھے موت کی اصل وجہ بتائی اور پھر وہاں سے ہم نے لاش اُٹھائی ”
قاری محمد شعیب کے بھانجے صحافی قوت خان جو روزنامہ جھنگ کے ساتھ وابستہ ہے نے اس ھوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحافی قاری شعیب ایک پاک اور راست گو انسان تھے۔ روزنامہ آزادی،خبرکار اور ایک نیوز ایجنسی کے لئے کام کرتے تھے ۔ سوات میں کشیدہ حالات کے دوران اُن کو طالبان کی جانب سے بار بار دھمکیاں دی جاتی تھی مگر وہ حق گوئی پر قائم رہے اور اپنی صحافتی ذمہ داریاں جاری رکھی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” طالبان کے خلاف انہوں نے پولیس اسٹیشن رحیم آباد میں ایف آئی آر بھی درج کروائی تھی مگر اس وقت پولیس اور دیگرقانون نافذ کرنے والے ادارے مفلوج تھے اور انہیں کسی قسم کا تحفظ فراہم نہ کیا جا سکا ۔”
سیکورٹی ذرائع کا اس ھوالے سے کہنا تھا کہ قاری شعیب کو دوران کرفیو فائرنگ کا نشانہ بنایاگیا تھا اور سیکورٹی اہلکاروں کو علم ہی نہیں تھا کہ گاڑی میں صحافی بیٹھا ہے یا کوئی اور۔
قاری شعیب کے بھانجے قوت خان مزید کہتے ہیں کہ جس دن اور جس وقت قاری شعیب کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا اس وقت نہ تو کرفیو لگا ہوا تھا اور نا ہی بازار بند تھا سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا لیکن جیسے ہی قاری شعیب کی گاڑی ائیرپورٹ روڈ کی حدود میں داخل ہوئی تو سیکورٹی اہلکاروں نے اُن کی گاڑی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا ۔ ” قاری شعیب کو چار گولیاں لگی تھی جس سے موقع پر ہی اُن کی موت واقع ہوئی ” ۔
ایف آئی آر درج ہوئی نا ہی تحقیقات
صحافی قاری محمد شعیب کے قتل کی نہ تو کسی نے ایف آر درج کروائی اور نا ہی کسی نے تحقیقات کرانے کی کوشش کی ۔ 14 نومبر 2008 کو اوورسیز پریس کلب آف امریکہ نے اس وقت کے پاکستان کے صدر آصف علی زرداری کو ایک خط بھیجا تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ صحافی قاری محمد شعیب کے قتل کی شفاف تحقیقیات کرائی جائے ۔ خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے وارننگ دئے بغیر گاڑی پر فائرنگ کی۔ پی ایف یو جے کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ صحافی کا قتل ” غلطی ” سے ہوا ہے ۔
سوات پریس کلب کے چئیرمین شہزاد عالم اس حوالے کہتے ہیں کہ قاری محمد شعیب کی گاڑی کو دوران کرفیو نشانہ بنایا گیا تھا اور کشیدگی کے دوران یہ معمول کی باتیں ہوا کرتی تھی ۔ سیکورٹی فورسز کی جانب سے بھی اور طالبان کی جانب سے بھی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” کشیدگی میں ہمارے چار صحافی شہید ہوئے ۔ دیگر چار صحافیوں کی طرح قاری شعیب کے قتل کی ایف آئی آر بھی درج نہ کی جا سکی تھی کیونکہ حالات ہی کچھ اور تھے ۔ ”
قاری محمد شعیب کے بھائی بختیار نے اس حوالے سے بتایا کہ ہم گہرے صدمے میں تھے اور سیکورٹی اہلکاروں کے خلاف ایف آئی درج کرانا ممکن نہ تھا ۔ ” ہمیں علم تھا کہ اگر ایف آئی آر درج بھی کرائی جائے تو پھر بھی کچھ ہونے والا نہیں ہے ۔”
میڈیا تنظیمیں سیخ پا ہوگئی
صحافی قاری محمد شعیب کا قتل تیسرا واقعہ تھا اس سے قبل بھی دو اور صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے جس کے بعد صحافتی برادری سیخ پا ہوگئی اور ملک گیر احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ صحافی شہزاد عالم کہتے ہیں کہ قاری شعیب کے قتل کے بعد ہم نے صحافیوں کے تحفظ کے لئے احتجاجی مظاہرے کئے اور حکومتی عہدیداروں سمیت سیکورٹی فورسز اور طالبان سے بھی ملاقاتیں کیں کہ صحافیوں کو دوران جنگ تحفظ فراہم کیا جائے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” دونوں فریقین کے ساتھ صرف زبانی باتیں ہوا کرتی تھیں اور دونوں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کی یقین دہانیاں کرائی جاتی تھی مگر تحریری معاہدہ کسی بھی فریق کے ساتھ نہیں ہوپایا تھا ۔ ”
قاری شعیب واحد کفیل تھا
صحافی قاری محمد شعیب گھر کا واحد کفیل تھا،ان کی دو بیویاں،تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا جبکہ گھر میں ایک ماں اور دوبھائی بھی تھے ۔ قاری شعیب کے چھوٹے بھائی بختیار نے ایک سال بعد ان کی ایک بیوہ سے شادی کرلی جبکہ دوسری بیوہ سے ان کے بڑے بھائی کے بیٹے نے شادی کرلی ۔ بختیار خان کا کہنا ہے کہ قاری شعیب کے جانے کے بعد در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ اور اس کے بعد بڑی مشکل سےگھر کا خرچہ چلایا ” ان کے جانے کے بعد ماں بیمارہوکر بستر تک محدود ہو گئیں اور اب بھی اس کو یاد کرکے رویا کرتی ہے ۔ ”
امداد و یقین دہانیاں
قاری محمد شعیب کی شہادت کے بعد سیکورٹی فورسز نے ان کے اہلخانہ کو دولاکھ روپے کا معاوضہ دیا جبکہ ان کے بچوں کی تعلیمی اخراجات اُٹھانے کی بھی یقین دہانی کرائی ۔ قاری شعیب کے بھائی بختیار خان کا کہنا ہے کہ بھائی کی شہادت کے بعد صرف فوج نے ان کی مدد کی اور میڈیا اداروں کی جانب سے ستر ہزار روپے ملے،باقی بچوں کی تعلیم کے وعدے بھی ایفا نا ہو سکے اور حکومت کی جانب سے پلاٹ دئے جانے کا وعدہ بھی ابھی تک پورا نا ہوسکا ” قاری شعیب کے بیٹے کو یتیم بچوں کے ادارے پرورش میں داخل کرایا ہے جبکہ ان کی بیٹیاں مالی اخراجات کی کمی کے باعث تعلیمی میدان میں پیچے رہ گئیں ہیں ۔ ”
بختیار خان مزید کہتے ہیں کہ جب فوج کی جانب سے دو لاکھ روپے کی امداد ملی تو طالبان کی جانب سے دھمکیاں ملنا شروع ہو گئی کہ فوج سے پیسے کیوں لئے ؟ جس کے بعد ہم نے گھربار چھوڑ کر اسلام آباد میں رہائش اختیار کرلی اور جب حالات سازگار ہوگئے تو تب ہی واپسی اختیار کی۔
خطرات گزشتہ سے پیوستہ ہے
وادی سوات میں جہاں دہشت گردی کے دوران صحافیوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے،انہیں ڈرایا دھمکایا گیا،انہیں اغواء کیا گیا اور ان پر تشدد کیا گیا۔ سوات ہی نہیں ملک بھر میں صحافیوں کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ جو خطرات صحافیوں کو دہشت گردی کے دوران درپیش تھے ان سے کئی گناہ خطرناک خطرات آج بھی موجود ہیں۔ سینئیر صحافی نیاز خان کے مطابق آج بھی صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے،انہیں دباؤ کا شکار بنایا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ” صحافیوں کو اغواء کرنا انہیں تشدد کا نشانہ بنانا ایک عام سی بات ہے ۔ آج بھی سوات سمیت پاکستان بھر میں صحافیوں کو منشیات فروشوں،جرائم پیشہ عناصر اور ریاستی اداروں کیجانب سے شدید خطرات لاحق ہے ۔”
صحافی حسین علی خان کہتے ہیں کہ با اثر افراد اور ریاستی ادارے خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ذہنی اذیت پہنچاتے ہیں ۔ ” آج بھی جب کسی با اثر شخصیت یا ریاستی اداروں کے خلاف خبریں نشر ہوتی ہیں تو وہی خطرات محسوس کئے جاتے ہیں جو آج سے گیارہ سال قبل تھی ۔
صحافی نیاز احمد خان اور صحافی فیاض ظفر کو افغانستان سے بھی فون کے ذریعے دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔ حکومت اور پولیس کی جانب سے صحافیوں کے لئے سیکورٹی فراہم کرنے کے دعوے تو کئے جا رہے ہیں تاہم مہیا کی گئی سیکورٹی میں صحافی غیر محفوظ ہی ہیں۔
صحافیوں کو خطرات اور حکومتی اقدامات
سوات میں قاری شعیب سمیت چار دیگر صحافی کشیدگی کے دوران شہید ہوئے ۔ دوران کشیدگی صحافیوں کے لئے کسی قسم کے حفاظتی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے اور آج بھی صحافی غیر محفوظ ہیں ۔ صحافی شہزاد عالم کہتے ہیں کہ حکومتی اقدامات تو ایک طرف میڈیا اداروں کی جانب سے بھی صحافیوں کے تحفظ کے لئے اقدامات نہیں اُٹھائے جاتے ، انہیں وارزون میں رپورٹنگ کرتے ہوئے سیفٹی جیکٹ تک مہیا نہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” قومی اسمبلی میں صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے پیش کیے جانے والے بل پر فوری عمل درآمد کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ صحافیوں کا تحفظ ممکن ہو سکیں ۔”
سینئیر صحافیوں،تجزیہ نگاروں اور قانون دانوں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ قانون ساز اداروں میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اور موثر قانون سازی سے ہی صحافیوں کا تحفظ ممکن ہو پائے گا۔ بصورت دیگر ” جس کی لاٹھی اس کی بھینس ” والا قانون چلتا رہےگا۔
1,704 total views, 2 views today