تحریر، حکیم عثمان علی
ڈینگی بیماری ایک خاص مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے،ملک میں ڈینگی کا پہلا کیس 1994میں کراچی میں سامنے آیا تھا جس سے یہ مرض پورے ملک میں پھیلتا گیا پاکستان سے قبل امریکہ میں ڈینگی کے مریض سامنے آئے تھے جس پر تحقیق کی گئی تومعلوم ہوا کہ یہ وائرس امریکی بندر گاہ میں موجود برآمد شدہ پرانے ٹائروں میں موجود کھڑے پانی کی وجہ پیدا ہوا ہے ڈینگی وائرس پاکستان پہنچنے کے حوالے ماہرین کا خیال ہے کہ کراچی پاکستان کی مرکزی بندرگاہ ہے اس وجہ سے یہ بیماری امریکہ سے برآمد شدہ اشیاء کے ذریعے کراچی پہنچ گئی ہوگی اور چونکہ کراچی سے ہی تمام غیر ملکی اشیاء ملک کے تمام شہروں کو پہنچائی جاتی ہے اس وجہ سے یہ بیماری ملک بھر میں پھیل گئی،سوات میں اس موذی مرض نے 2013میں شدت سے حملہ کیا جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوگئے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے اس وقت سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 36افراد ڈینگی وائرس سے جاں بحق ہوئے جبکہ غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق جاں بحق افراد کی تعداد 100سے زیاد ہ تھی چونکہ سوات میں یہ مرض اچانک آیا تھا اس وجہ بروقت رو ک تھام نہ ہوسکا اور سردی کے موسم کے دوران بھی عوام متاثر ہوتے رہے،
اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف نے انجینئرامیرمقام کی اپیل پر وائرس کی تشخیص کرنے کے آلات اور ڈاکٹروں کی ٹیم سوات بھیجی تھی 2014میں بروقت حفاظتی اقدامات کے باعث ڈینگی کے کم کیس سامنے آئے،2015اور2016میں بھی یہ مرض قابو میں رہا تاہم بار بار آگاہی مہمات اور بروقت عملی اقدامات کے باعث 2017اور 2018میں سوات میں ڈینگی کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا لیکن2013 کے بعد اب ایک بار بھر 2019میں ڈینگی وائرس نے تیزی کے ساتھ سر اٹھایا ہے اور سوات میں تیزی سے پھیل رہاہے، آئے روز ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں میں اضافہ ہورہاہے،ڈینگی بخار سے تاحال سیکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ روز بروز اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے،مینگورہ کے شہری علاقے اس مرض سے زیادہ متاثر ہیں،فوکل پرسن ڈاکٹر نجیب اللہ کے مطابق 16ستمبر تک سیدوٹیچنگ پاسپیٹلز رپورٹ کے مطابق ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 153ہوگئی،124مریضوں کو سید وہسپتال میں علاج کے بعد فارغ کردیا گیا ہے جبکہ 29مریض زیر علاج داخل ہیں،جبکہ بہت سے مرض نجی ہسپتالوں اور نجی کلینکوں سے علاج کررہے ہیں،گل کدہ کے رہائشی باچا رحمان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے اوردو بھتیجوں کو تیز بخار لاحق ہوا اور تینوں شدید دردوں میں مبتلاہوگئے جنہیں ہم نے سیدو ہسپتال کے ایمرجنسی یونٹ کو منتقل کیا،جہاں پر ایک مریض ٹانسلز تشخیص ہوا جبکہ دو بچوں کا ڈینگی ٹیسٹ تجویز کیا گیا تاہم باچا رحمان کو ایمرجنسی میں ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہسپتال میں ڈینگی ٹیسٹ کی سہولت نہیں اس لئے باہر لیبارٹری سے کریں ہسپتال کے سامنے ایک لیبارٹری نے باچا رحمان سے دو ٹیسٹوں کے دو ہزار روپے وصول کئے،رپورٹ مثبت آنے پر باچا رحمان اب نجی ڈاکٹر سے بچوں کا علاج کررہا ہے کیونکہ وہ سرکاری ہسپتال کے علاج سے مطمئن نہیں ہے.
اسی طرح پیپلزیوتھ ارگنائزیشن ضلع سوات کے صدر سجاد خان باغی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ میں خود اور گھر کے دیگر تمام افراد ڈینگی وائرس میں مبتلا ہیں لیکن ہسپتالوں میں سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سےگھر پر علاج کررہے ہیں اس سلسلے میں جب فوکل پرسن ڈاکٹر نجیب اللہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں ڈینگی مریضوں کیلئے بہترین سہولیات اور مردوں و عورتوں کے لئے الگ الگ وارڈز قائم کئے گئے ہیں لیکن معمولی بخار کے باعث بھی روزانہ سیکڑوں افراد ڈینگی ٹسٹ کے لئے ایمرجنسی آتے ہیں اس لئے وہاں کے ڈاکٹرز انہیں باہر ٹسٹ کرنے کا بتاتے ہیں حالانکہ ان میں ڈینگی بخار کے اثرات نہیں ہوتے تاہم اس سلسلے میں عوام کا کہنا ہے کہ ڈینگی مریضوں کے ہسپتال میں مستقل طور پر سہولیات، این ایس ون سٹپ اور ادویات سے آراستہ مخصوص وارڈ مختص ہونا چاہیئے تاکہ مریضوں نجی ہسپتالوں سے علاج نہیں کرنا پڑے،موجودہ صورت حال میں نجی لیبارٹریاں مجبور عوام کو این ایس ون ٹیسٹ کی مد میں لوٹ رہی ہیں حالانکہ آل سوات ہیلتھ کوار ڈنیشن کونسل کے صدر ڈاکٹر خالد محمود نے نجی لیبارٹریوں کے مالکان پر واضح کیا ہے کہ اگر کسی لیبارٹری عوام سے ٹیسٹ کے زیادہ پیسے لئے تو ان کا ہماری تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہو گا اس حوالے ڈاکٹر خالد محمود خالد کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے این ایس ون سٹپ کے مختلف ریٹس ہیں یہ سٹپ 250روپے سے لے کر 465روپے میں لیبارٹریوں کو ملتا ہے
حکومت کو چاہیئے کہ وہ کمپنیوں کو قیمتیں کم کرنے پر مجبور کریں تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے، سوات کے فوکل پرسن محی الدین کا کہنا ہے کہ ڈینگی مچھر کے خاتمے کی مہم ہم نے 20 مارچ سے شروع کی تھی جو تاحال جاری ہے اورآج تک ہم نے گھروں کے باہر 35100 جگہوں کا معائنہ کیا ہے جس میں 572624 افزائش کی جگہوں کامعائنہ شامل ہے، 924 افزائش کی جگہوں کو تلف کیا گیا گھروں کے اندر خواتین ورکروں نے 212640 گھروں اور افزائش کی 1945654 جگہوں کا معائنہ کیا جس میں 137 افزائش کی جگہوں کو موقع پر تلف کردیا گیا ہے، ہم نے کئی متاثرہ مریضوں کے خون کے نمونے لیکر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد بھیجے ہیں ان کی رپورٹ آنے کا انتظار ہیں مزید یہ کہ 21 اگست سے متاثرہ علاقوں ملوک آباد، رنگ محلہ، گنبد میرہ، راجہ آباد، صدیق آباد، حاجی بابا، قمبر وغیرہ میں گھروں کے اندر مچھر مارسپرے شروع کیا گیا روزانہ کی بنیاد پر فوگنگ سپرے بھی جاری ہے ملوک آباد میں فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کرکے 300 افرادکا معائنہ کرکے ادویات دی گئی ہیں مزید فری میڈیکل کیمپس کے انعقاد جاری ہیں، ڈی سی سوات، اے سی بابوزئ سوات اور پشاور کے صوبائی محکمہ جات کے حکام کیساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں انہوں نے ڈینگی کے خاتمہ کیلئے عوام سے تعاؤن کی اپیل کی ہے،ڈیڈک چیئر مین فضل حکیم خان کی ہدایت پر اگرچہ نئی بلڈنگ میں ڈینگی مریضوں کیلئے الگ وارڈ قائم کیا گیا ہے تاہم اس وارڈ کیلئے ہنگامی بنیادوں پر سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے، اس سلسلے حکومت کا فرض بنتاہے کہ وہ محکمہ صحت کو فنڈز فراہم کریں تاکہ ہسپتالوں میں سہولیات کی فراہمی سمیت ڈینگی مچھر مار سپرے کیلئے انتظامات ہوسکے جبکہ عوام بھی ڈینگی وائر س کے خاتمے کیلئے عوام اپنے گھروں، دفاتر اور عام مقامات پر حفاظتی تدابیر اختیار کریں، ماہرین کے مطابقڈینگی وائرس مادہ مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے اور یہ مادہ مچھر صاف پانی میں انڈے دیتا ہے اس لیے ہمیں اپنے ارد گرد کھلے میں پانی نہیں چھوڑنا بلکہ اپنے برتنوں کو بھی ڈھانپ کر رکھنا ہے، متاثرہ علاقوں کے آئمہ کرام کو بھی ہد ایت جاری کی جائے کہ وہ جمعہ کے خطبات میں عوام کو احتیاطی تدابیر کے بارے میں آگاہی د یں، اگر ڈینگی کے خاتمے کیلئے تمام ادارے متحرک ہوگئے اور عوام نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کئے تو بہت جلد ڈینگی وا ئرس پر قابو پا لیا جا ئے گا
1,408 total views, 2 views today