شاہی باغ میں کجری کی تین جھیلوں کے علاوہ دو اور جھیلیں ہیں۔ بالے کے نام سے جو جھیل ہے، اس کا راستہ سہل ہے۔ ندی کا پانی جدھر سے آرہا ہے، اس کا تعاقب کریں۔ چھوٹے بڑے پتھروں کو پھلانگتے جائیں، شفاف پانیوں کا مزا لیں، آبشاروں کو گنتے جائیں اور پہاڑی چوٹیوں کو دیکھتے جائیں۔ جھیل خود بخود آپ کا راستہ کاٹے گی۔ بالے نام کی یہ جھیل کچھ خاص نہیں تھی۔ البتہ مشروم کے نام سے جو جھیل ہے، اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ جھیل بڑی ہے، بلندی پر ہے، راستہ پرخطر ہے اور آس پاس کے نظارے خوب تر ہیں۔
دو دن کجری کی تین جھیلوں میں گزار کر ہم نے مشروم جھیل کی طرف جانے کا ارادہ کر لیا۔ کیمپ سائیٹ سے علی الصباح ہم مشروم جھیل کے لیے روانہ ہوئے۔ ندی کے پانیوں کا تعاقب کرتے رہے۔ دو گھنٹے ندی کے ساتھ ساتھ چلتے گئے۔ چھوٹی سی ایک چراگاہ کے پاس، جس کے بیچ ندی کا پانی پتلی دھاروں کی طرح بہتا تھا، ہم رک گئے۔ دائیں بازو پر بلندی سے لکیر کی صورت میں پانی نیچے کی سمت آتا تھا۔ پانی کی اس لکیر کے ساتھ ہم نے اوپر جانا تھا۔ یہی پانی مشروم جھیل سے بہہ کر آتا تھا۔ ایک عمودی راستہ دکھائی دیتا تھا۔ بالکل کھڑا راستہ تھا اور لگتا تھا جیسے سیدھا آسمان کی طرف نکلا ہو۔ ہمیں یہ یقین ہو چلا تھا کہ اس راستے پر ہم نے جانا ہے۔ گر جیت گئے تو جھیل آئے گی، ہارے تو بازی مات نہیں۔۔۔۔۔ جھیل آئی تو ٹھیک وگرنہ آسمان کی سیر تو ہو ہی جائے گی۔
ذیادہ سوچنا صحت کے لیے مضر ہوتا ہے۔ ہم نے سوچنا چھوڑ دیا اور عمل کرنا شروع کر دیا۔ یہ راستہ سچ میں مشکل ترین ہے بھائیو اور بہنو۔۔۔ ندی کنارے سے جھیل مشروم تک کا سفر، ہماری زندگی کے مشکل ترین سفروں میں سے ایک سفر ثابت ہوا۔ پیروں سے زیادہ ہم نے ہاتھوں کا سہارا لیا، بل کہ یوں سمجھ لیں ہم چوپایوں کی طرح گئے۔ یہ جھیل بڑی ہے اور خوب صورت ہے۔ آس پاس کے پہاڑ نوکدار اور برف سے ڈھکے ہیں۔ جھیل کے نیلگوں پانیوں میں ان پہاڑی چوٹیوں کے عکس بنتے تھے اور مٹتے تھے۔ ہم نے سب سے پہلا کام جو کیا، وہ آرام کرنے کا تھا۔ تھکان سے بدن چور تھے۔ اوپر چڑھتے ہوئے ہمیں پیاس نے سب سے زیادہ ستایا۔ راستے میں ایک جگہ ایسی آتی ہے جہاں پانی، آب حیات بن کر آپ پر وارد ہوتا ہے۔ باقی راستہ خشک ہے اور پتھروں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ راستہ ہے ہی نہیں، بس آپ نے خود راستہ بنانا ہے اور اوپر جانا ہے۔ کچھ من چلے یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ بھئ ان پر خطر راستوں پر چل کر آپ کو ملتا کیا ہے، جو جاتے ہو۔ اُن کے لیے ایک عرض ہے، بھئ ہم نہیں جاتے، ایک کیڑا ہے، جو ہمیں ہر وقت ستاتا ہے اور جب تک ہم جا نہیں پاتے، یہی کیڑا ہمیں ستاتا ہی رہتا ہے۔
مشروم جھیل پر کافی سارا وقت گزار کر ہم نے واپسی کی راہ لی۔ جھیل کنارے ہمیں ایک چرواہا ملا۔ اللہ اس کا بھلا کرے، اس نے ہمیں ایک نیا راستہ دکھایا جس پر چل کر ہم تھوڑی سہولت کے ساتھ اترے۔ اس نئے راستے پر چل کر ہم نے بالے جھیل کے درشن بھی کیے۔ ہمارے پاس سب کچھ تھا، بس وقت کی کمی تھی۔ شام ہونے کو تھی اور ہم نے واپس کیمپ سائیٹ بروقت پہنچنا تھا۔ ہم نے بھالے جھیل کے دور سے ہی درشن کیے۔ چند تصاویر لیں اور واپسی کی راہ لی۔ شام آٹھ بجے کے لگ بھگ خیموں پر پہنچے۔ چاول پکائے اور کھائے۔ پر سکون رات گزاری اور اگلی صبح شاہی باغ کی طرف واپسی کا سفر شروع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹریک کے ساتھیوں کے ساتھ یہ یادگار سفر اختتام پذیر ہوا، بل کہ یوں سمجھیں اس ایک سفر کا اختتام نئے سفر کی شروعات کا شاخسانہ ثابت ہوگا۔۔۔ ان شا اللہ
۔۔
تحریر و عکاسی: خانہ بدوش
1,064 total views, 2 views today
Comments