تحریر؛۔ رسول خان
ریاستی دور میں منگورہ مین بازار میں میری ایک جنرل سٹورتھی اور والئ سوات کے باورچی خانے کا کنٹرکٹ میرے پاس تھا۔ ایک دفعہ لنڈاکی کے ٹھیکدار نےمجھ سے درامدی ٹیکس کے مد میں مجھ سے سکوائش کا ٹیکس دوائ کے شرح سے لے لیا۔ میں نے کافی سمجھایا کہ یہ دوائ نہیں لیکن وہ نہ مانا۔ میں نے والئ سوات کے ماہانہ بل میں سکوائش کی قیمت 3 روپے بوتل کے بجائےسوا تین روپے لکھ دیا۔ اگلی صبح والئ سوات نے دفتر بلایا۔ اسی سوا تین روپے کے گردسرخ گول دائرہ اپنے قلم سے بنایا تھا مجھے دکھاکرپوچھا رسول خان کیا سکوئش مہنگا ہوگیا ہے میں نے جواب دیا حضور کمپنی سے مہنگا نہیں ہوا لیکن درآمدی ٹیکس میں مہنگائ کے وجہ سے چار آنے مہنگا ہوگیا ہے۔ کیونکہ اب سکوائش کا محصول دوائ کے شرح سے وصول کیا جاتا ہے۔
بس جی کھڑے کھڑے مشیر مال کو بلایااسکے بعد اس کے اسسٹنٹ کو حا ضر ہونا پڑا۔ اورسب کی گوشمالی کے بعد محصول کے ٹھیکدار کو بلوایا گیا۔ اور اس کی گوشمالی کے بعد پانچ سو روپیہ جرمانہ کرکے مجھ سے وصول کردہ اضافی محصول کی واپسی کے حکم کے ساتھ مجھے بل ٹھیک کرنے کا حکمُ ہوا۔ یہ پورامقدمہ والئ سوات کے دفتر کے برآمدے میں کھڑے کھڑے پندرہ منٹ میں حل ہوا اور ٹھیکدار صاحب نے اسی وقت میرےپیسے مجھے دئے۔ اور پانچ سو کا جرمانہ سرکاری خزانے میں جمع کرکے جان چھڑائ۔ اسے کہتے ہیں گورننس۔
792 total views, 2 views today