پُرہجوم جگہوں سے گزریں۔ بس یا گاڑیوں میں سفر کریں اور پھر اگلی جگہ پیسے لینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈالیں، تو بٹوہ؍ پیسے غایب۔ اور پھر جو بندے کی حالت ہوتی ہے، وہ صرف اللہ اوروہ بندہ ہی جانتا ہے۔ میرے ساتھ اس نوعیت کا پہلا واقعہ تب پیش آیا، جب گستاخانہ خاکوں کے خلاف تمام شہر میں بلوائی حملے ہورہے تھے۔ سرکاری اور نجی املاک کو لوگ یوں برباد کررہے تھے جیسے انھوں نے دشمن کے ملک پر قبضہ کرلیا ہو۔ سڑکوں کے درمیان لگے ٹریفک کے ساین بورڈز اور خوب صورت پودوں کا یوں اُکاڑ پچھاڑ شروع تھا کہ الامان و الحفیظ۔ بات لمبی ہورہی ہے اور پرانا حوالہ بھی ہے۔ اُس دن بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی۔ رات یونی ورسٹی کیمپس میں گزارنے کے بعدصبح آفس کے لیے نکلا، تو پہلے تو گاڑی نہیں ملی۔ پھر آدھے شہر کا طواف کرکے ایف سی چوک کے پاس ایک بس نمودار ہوئی جس میں بہ مشکل جگہ ملی۔آفس کے قریب اترا اور جیپ میں ہاتھ ڈالا، تو بٹوا غایب۔ یااللہ! میری بھی حالت ایسی ویران اور اُجاڑ ہو رہی تھی جیسے لوگ شہر کی کررہے تھے۔کہتے ہیں قمیص میں سایڈ کی جیب پرائی ہوتی ہے مگر کیا کہیں چالاک اور تیز طرار جیب کتروں کی جو دن دھاڑے آپ کی کھلی آنکھوں کے سامنے آپ کی سامنے کی جیب سے پیسے اور موبایل فون وغیرہ نکال لیتے ہیں اور مجال ہو جو آپ کو ذرہ برابر احساس بھی ہو کہ کوئی چیز آپ کی جیب سے نکلی ہے۔
دوسرا واقعہ کچھ مہینے پہلے کا ہے، تب بھی لوکل ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی اور مجبوراً جس بس میں مجھے سفر کرنا پڑا، اُس میں رش کافی زیادہ تھی۔ خیبر بازار سے میں بس میں چڑھا اور دروازے کے پاس کھڑے ہونے کی جگہ ملی۔ میرے ساتھ دو تین افراد بھی پھرتی سے گاڑی میں سوار ہوئے۔ ایک شخص میرے پیچھے تقریباً چپک کر کھڑاتھا۔ ایک موٹا تازہ بندہ بالکل میرے آگے اور ایک بندہ بس کے دروازے میں کنڈیکٹر کے پاس کھڑا تھا۔ دکھائی یوں دے رہا تھا جیسے انھوں نے بھی بڑی مشکل سے بس میں جگہ پکڑی ہو۔ تھوڑی ہی دیر بعد مجھے اپنے سینے پر ہلکا سا کچھ چھوتا ہوا محسوس ہوا، اب جو دیکھا تو میرا موبایل فون غایب۔ احساس ہوا اور اگلے والے شخص کو پیچھے سے پکڑ لیااور اُس کو کہا کہ موبایل واپس کرو۔ اُس نے پھرتی سے میرا موبایل فون بس دروازے میں کھڑے اپنے ساتھی کے حوالے کیا جو اس کو اپنی شلوار کی جیب میں ڈال رہا تھا جس کو اتفاقاً میں نے اور بس کنڈیکٹر نے دیکھ لیا جس کو اس بندے نے تیزی سے بس سے باہر پھینک دیا۔ میں تو بس سے چلانگ لگا کر اپنے فون کے پیچھے بھاگا جو اللہ کے کرم سے صرف ایک خراش لگنے کے سوائے بالکل ٹھیک ٹھاک تھا، ورنہ تو تن خواہ کے ڈبل کا نقصان کنفرم تھا۔
دو تین دیگر واقعات میں مجھے اور بہت سارے دوستوں کو بھی موبایل فونز اور پیسوں سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔ ایسا صرف میرے ساتھ نہیں ہوا ہے بلکہ ملک کے ہر دوسرے شہری کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ایسے واقعات کی پولیس میں رپورٹ بہت لازمی ہوتی ہے، لیکن لوگ ایک تو نقصان ہونے کے غم سے اورپھر پولیس کے مخصوص رویے اور تھکادینے والی کارروائی کی وجہ سے رپورٹ کرنے نہیں جاتے۔ شہر کی بسوں اور ویگنوں میں سفر کریں تو دو تین لوگوں کا گروہ معصوم لوگوں کے پیچھے پڑا ان کی جیبیں کاٹنے کے درپے ہوتا ہے۔ بس سے اُترتے وقت دروازوں میں یہ لوگ رش بنائے کھڑے ہوں گے۔ بھری ہوئی بسوں میں ایک گیٹ سے داخل ہوں گے اور دوسرے دروازے سے لوگوں کی بھیڑ کو چیرتے، لوگوں کی سائیڈ اور دیگر جیبوں کو ٹٹولتے جائیں گے۔ اگر کوئی اُن کو دیکھ کر شور مچائے یا پکڑلے تو ان جرایم پیشہ افراد کے دیگر ساتھی ایسا ماحول بنا لیتے ہیں کہ ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے اور آس پاس دوسرے لوگ بھی آسانی سے شکار ہوجاتے ہیں۔
پھر ان ہٹے کٹے افراد کا مقابلہ یا اُن کی شکایت ہم جیسے افراد کے لیے ناممکن ہے جو اگلے کسی اسٹاپ یا دوسری جگہ پر آپ کو گھیر کر بدلہ لے سکتے ہیں۔ یہ لوگ جس دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے گروپس میں یہ حرکتیں کرتے ہیں، ان کو دیکھ کر تو دل میں شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ یہ احوال میرا آنکھوں دیکھا ہے، جن کا میں گواہ ہوں۔ کیا ان اسٹریٹ کرایمز اور ان جرایم پیشہ افراد کا پولیس کو علم نہیں ہوتا؟ سننے میں آیا ہے کہ ہماری پولیس بہت تیز اور ذہین ہے۔ اپنے علاقے کے ہر فرد پر اُن کی نظر ہوتی ہے۔ ہر جرایم پیشہ فرد و گروپ کا اُن کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے۔ چلیں چھوٹے شہروں اور قصبوں کو چھوڑیں، صوبے کے دارالحکومت پشاور میں ایسے واقعات روز رونما ہوتے ہیں۔ ہر روز ہزاروں افراد ایسے اور ان جیسے دوسرے واقعات کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق کراچی کا ہر دوسرا شہری اسٹریٹ کرایمز کا شکار ہوتا ہے بلکہ مملکت خداداد کا ہر دوسرا شہری ان جرایم پیشہ افراد کا شکار لگ رہا ہے۔ موبایل فونز، نقدی اور خواتین سے پرس و زیورات کا چھیننا بھی معمول کی بات ہے۔
کئی سال پہلے مرحوم ڈاکٹر ظہور احمد اعوان صاحب کا سفرنامہ ’’امریکہ نامہ‘‘”پڑھا تھا جس میں انھوں نے اسٹریٹ کرایمز کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ نیویارک کی گلیوں میں اگر تھوڑی سی بھی سنسان گلی سے گزر ہو، تو وہاں کے اوباش لوگ چاقو یا کوئی اورتیز دھار آلہ دکھا کرآپ سے نقدی وغیرہ چھین لیتے ہیں اور اگر جیب میں کچھ نہ بھی ہوتب بھی وہ مارپیٹ سے نہیں کتراتے کہ پیسے کیوں نہیں ہیں؟ تب یہ بات بہت عجیب لگی تھی مگر اب ہماری ہر گلی محلے میں ایسی وارداتیں رونما ہورہی ہیں بلکہ ہم ان کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہمارے والد صاحب فرماتے ہیں کہ سوات میں والئی سوات کی حکومت کے وقت امن و امان کی ایسی صورت حال تھی کہ سوات کوہستان سے اگر ایک خاتون زیورات سے لدی اکیلے سفر کرتے ہوئے لنڈاکے چیک پوسٹ تک آتی، تو کسی کی کیا مجال تھی کہ اُسے آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھتا۔ اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ اپنے محلے میں بھی عشاء اور فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جائیں، تو بندہ فکر مند۔ یہ حالت پیارے وطن کی ہر گلی، ہر محلے اور ہر بازار کی ہے۔ ان حالات کا ذمہ دار ہر شہری ہے۔ ہم صرف سیکورٹی اداروں کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہراسکتے۔ بے شک اُن کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری بھی ہوگی مگرقصور ہمارا بھی برابر کا ہے۔ کیا ہم اپنے بچے کی تربیت اُن خطوط پر کررہے ہیں جہاں اس کو غلط اور صحیح کا ادراک ہو، کیا ہم اُس کو پیسے اور پُرآسایش زندگی کے خواب دکھا کر اُس کو اتنی سہولیات فراہم کررہے ہیں، کیا ہمارا میڈیا جس طرح کے الٹرا ماڈرن اور ہائی فائی کلاس کریکٹرز سے بھر پور ڈرامے دکھا کر گھروں میں بیٹھی نوجوان قوم کی تربیت کررہا ہے، کبھی کسی نے میڈیا کا ٹرایل کیا ہے، کیا کبھی کسی نے ہرسال تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی مستقبل کی فکر کی ہے؟ کیا کسی نے اُن بے روزگار اور ناخواندہ جوانوں کی فوج کا کوئی غم کیا ہے جو گلی محلوں میں آوارگیاں کرنے پر مجبور ہوتے ہیں؟ خدارا! جن کو چنیں، دیکھیں کہ کیا وہ اس قابل ہیں کہ ملک و قوم کا مستقبل سنوار سکیں، جو اس قوم کے جوانوں کے لیے کچھ کرسکیں۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے ہیں، لوگ صرف اقتدار کی گدی پر بیٹھ کر اپنی جبلی خواہشات کی تسکین کے لیے خدمت اور مذہب کے نام کی قلعی لگا کر اپنے پرانے پانڈوں کو بیچتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں نے بھی اپنے آپ کو جیب کترے ہی بناکر رکھ دیا ہے، جو قوم کی جمع پونجی کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جس دن ہم میں ایمان داری اور دیانت داری کی اصل روح جاگ اُٹھی، اُس دن یہ سارے جرایم ایک ایک کرکے خود اپنی موت آپ مرجائیں گے، مگر اس کے لیے سخت آپریشن سے گزرنا ہوگا جیسے جسم سے ناسور ہٹانے کے لیے ڈاکٹرز سرجری کرتے ہیں جس میں تکلیف بھی ہوتی ہے ۔
856 total views, 2 views today