تحریر ؛۔ اسرار احمد
صوبہ خیبر پختونخوا کے جنرل الیکشن 2013 کے نتیجے میں پی کے چھیاسی سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار قیموس خان علاقے کا ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ مگر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوارڈاکٹر حیدر علی خان اور جمعیت علماء اسلام کے امیدوار علی شاہ خان ایڈوکیٹ نے پریس کانفرنس میں اس پر دھاندلی کے الزامات لگائے ، اور ساتھ ہی الیکشن ٹربیونل میں انکے خلاف جعلی ڈگری اور انتخابی دھاندلی کا کیس دائر کر دیا، جس کے بہت سے سماعتوں کے بعد الیکشن ٹربیونل نے آٹھ ماہ بعد قیموس خان کے خلاف فیصلہ کر کے نا اہل قرار دیدیا اور آئیندہ کے لئے الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی ، جس کے بعد قیموس خان نے الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائیر کر دی اور سپریم کورٹ نے دو سماعتوں کے بعد ہی الیکشن ٹربیونل کے فیصلے کو بر قرار رکھتے ہوئے قیموس خان کو نا اہل قرار دیدیا گیا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن نے 24 اپریل کو دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیدیا۔
جمعیت علماء اسلام کے امیدوار علی شاہ خان نے گزشتہ انتخابات میں 10,300 ووٹ لیکر دوسری پو زیشن حاصل کی تھی ، عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر حیدر علی نے 10.028 ووٹ لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی تھی ، اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہی خان نے سات ہزار کے قریب ووٹ لیکر چوتھی پوزیشن حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی کے امیدوار محمد زیب خان نے پانچ ہزارکے لگ بھگ ووٹ لیکر پانچواں پوزیشن حاصل کیا تھا ۔
اب عوامی حلقوں کے مطابق پی کے چھیاسی کے ضمنی الیکشن میں جمعیت علماء اسلام کے امیدوار علی شاہ خا ن ایڈوکیٹ کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہے ۔ کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے قیادت نے نہ صرف جمعیت علماء اسلام کے ساتھ اتحاد کا فیصلہ کیا بلکہ ڈاکٹر حیدر علی خان ( جو عوامی نیشنل پارٹی کو خیر باد کہہ چکے ہے) کیخلاف میدان جنگ میں نکلے ہیں اوراپنے تمام تر توانائیاں ڈاکٹر حیدر علی خان کے خلاف جمعیت علماء اسلام کے امیدوار علی شاہ خان کے حق میں استعمال کررہے ہیں، دیگر امیدواروں میں آزاد امیدوار ابراہیم خان، آزاد امیدوار شیر محمد ،قومی وطن پارٹی کے امیدوار حیدر علی اورمضبوط آزاد امیدوارقجیر خان (جو کہ عوامی نیشنل پارٹی سے ڈاکٹر حیدر علی کے مخا لفت کی وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوا تھا، اور بتایا جاتا ہیں کہ پچھلے الیکشن میں ڈاکٹر حیدرعلی خان کے ہرانے کی بڑی وجہ قجیر خان کی مخالفت بھی تھی) کی حمایت بھی جے یو آئی کی امیدوار علی شاہ خان کو حاصل ہیں اور ان امیدواروں نے علی شاہ خان کے حق میں دستبرداری کا اعلان کر کے کاغذات نامزدگی واپس لئے ہیں۔ ساتھ ساتھ خوازہ خیلہ میں گوجر قومی تحریک کے رہنماوؤں اور چارباغ کے سماجی کارکن ثناء اللہ خان ( جو کہ علاقے میں سات آٹھ سال سے غریب عوام کے بہت خدمت کر رہے ہیں اور چارباغ میں بہت سے ٹیوب ویل ، کنویں ، پانی کے پائپ ، گلی کوچے وغیرہ مختلف خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور حال ہی میں چارباغ میں تین کلو میٹر روڈ منظور کر چکے ہے) بھی علی شاہ خان کے لئے الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ ان تمام تر حالات کے تنا ظر میں جمعیت علماء اسلام کے امیدوار علی شاہ خان ایڈوکیٹ کی پوزیشن مستحکم نظر آرہی ہیں۔اورعوامی حلقوں کے مطابق خیال کیا جاتا ہیں کہ ضمنی الیکشن میں علی شاہ خان واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کریں
گے۔
پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار ڈاکٹر حیدر علی خان ( جو کہ گزشتہ دنوں عوامی نیشنل پارٹی کو خیرباد کہہ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی) بھی سر فہرست کے امیدواروں میں شمار کیا جاتا ہیں ۔ڈاکٹر حیدر علی خان پہلی بار 2008میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایم پی اے منتخب ہوئے،انتخاب کے بعد وہ فارن افیئر سیکرٹری منتخب ہوا،فارن افیئر منتخب ہونے کے بعد وہ اپنے فیملی سمیت انگلینڈ گیا۔ عوامی حلقوں کے مظابق بتایا جاتا ہیں کہ عومی نیشنل پارٹی کا مکمل دور 43ہزار گھنٹے تھا لیکن ہمارا معزز ایم پی اے جناب ڈاکٹر حیدر علی خان نے ان 43 ہزار گھنٹوں میں سے 40 ہزار گھنٹے انگلینڈ میں گزار دئیے۔اور سوات کے کشیدگی کے دوران حلقہ کے عوام کے ساتھ کوئی میل جول نہیں تھا ، اور صوبائی اسمبلی کے 90% اجلاسوں میں غیر حاضر رہا وہی پانچ سال حلقہ ایم پی اے کے بغیر چلا گیا، اور پھرعوامی نیشنل پارٹی کے پلیٹ فارم سے 2013 کے جنرل الیکشن میں 10,028 ووٹ حاصل کیا ۔ اور اب چند وجوہات کے بنیاد پر ڈاکٹر حیدر علی خان نے عوامی نیشنل پارٹی کو خیرباد کہہ کر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کیا اور پی ٹی آئی کے سترہ سالہ کارکن محمد زیب نے ان کے خلاف بغاوت کر کے پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کی اور ڈاکٹر حیدر علی خان کو ناکام بنانے کے لئے اپنا سر توڑ کوشش کر رہا ہیں۔ جب ڈاکٹر حیدر علی خان ANPمیں تھے تو قجیر خان نے ان کے خلاف بغاوت کر کے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کیا تھا اور جب ڈاکٹر حیدر علی خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی تو پی ٹی آئی سے محمد زیب نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کیا اور قجیر خان واپس اپنے پارٹی ANP میں چلے گئے۔ اب چونکہ ANP کو ڈاکٹر صاحب نے خیر باد کہا ہے تو ڈاکٹر حیدر کو ہرانے کے لئے ANP کے قیادت کے ساتھ ساتھ قجیر خان اور محمد زیب خان سر گرم عمل ہیں۔پی ٹی آئی pk 86 میں بہت سے گروپوں میں بٹ چکی ہیں اسی وجہ سے ڈاکٹر حیدر علی خان مطلوبہ نتائج نہیں لے سکتے۔
مسلم لیگ ن کے امیدوار سردار خان جو کہ سابق ایم پی اے قیموس خان کا بھائی ہے بھی مضبوط امیدواروں میں ہیں اور اسکو وفاقی حکومت اور خاص کر وزیر اعظم کی مشیر امیر مقام سپورٹ کر رہے ہیں، اور سردار خان کے لئے مسلم لیگ ن کے ایم این اے امیر مقام کا بھائی ڈاکٹر عباد اللہ نے ڈھیرے ڈال دیئے ہیں، عوامی حلقوں کا کہنا ہیں کہ وزیر اعظم کے مشیر نے سردار خان کے لئے مختلف اعلانات کر دئیے ہیں جس میں نادرا آفس ، سب ڈویژن ، گیس پائپ لائین اور فیڈرشامل ہیں، لیکن پچھلے حکومت کے دوران 2007 میں بھی امیر مقام نے گیس کا افتتاح اسوقت کیا تھا جس وقت وہ مشرف کا چھوٹا بھائی تھا ،سات سال کے دوران پائپ لائن نہیں پہنچا، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سردار خان اپنے بھائی قیموس خان کے نسبت انتہائی کمزور دکھائی دے رہا ہیں، اگر سردار خان کی جگہ اس کا بھائی قیموس خان تھا تو ضرور اس بار بھی جیت جاتا لیکن سردار کی پوزیشن اسی وجہ سے کمزور ہیں کہ پچھلے ادوار میں 17 سالہ دور میں جب سردار کا بھائی حکومت میں تھا تو اس وقت سردار سے لوگ انتھائی ناراض تھے، دوسری طرف چونکہ امیرمقام اور اسکا بھائی ڈاکٹر عباد ، سردار خان کے لئے حلقہ میں مہم چلا رہے ہیں ایک طرف لوگ ان کو نا پسند کرتے ہیں کیونکہ پچھلے الیکشن میں سوات کے عوام نے تین حلقوں پر امیر مقام کو شکست دے کر ناکام بنایا ہیں اور دوسری طرف امیر مقام نے بارہ سال میں چار پارٹیاں بدل دئیے پہلے 2002میں ایم ایما ے کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا پھر تین ماہ کے اندر مشرف کے گروپ میں شمولیت اختیار کی اور مشرف نے ان کو اپنا چھوٹا بھائی بنا لیا پھر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی اوراس کے بعد پہلے تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہتی تھے لیکن پھر اس نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کیا۔ اور پی ٹی آئی سے آنے والا محمد زیب جس نے تبدیلی کے نعرے پر پانچ ہزار کے لگ بھگ ووٹ تحریک انصا ف کے ٹکٹ پر حاصل کی تھی جس میں زیادہ سے زیادہ ان کا اپنا شخصی ووٹ چھ سے آٹھ سوکے درمیان ہوگا وہ ووٹ سردار خان کے حق میں استعمال ہوگا، اس کے علاوہ باقی تمام ساتھی مایوس ہو کر ادھر ادھر چلے گئے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہی خان جس نے پچھلے الیکشن میں چوتھا پوزیشن لیا تھا عوامی حلقوں کے مطابق اس کی پوزیشن جوں کی توں ہے۔ یہ شاہی خان کا تیسرا لیکشن ہیں کہ پی پی پی کا اس حلقہ میں ووٹ بنک 6000 ا ور 8000 کے درمیان ہیں یہ ووٹ کم یا زیادہ نہیں ہوتا۔ عوامی حلقوں کے مطابق اس ضمنی الیکشن میں بمشکل 6000 ووٹ حاصل کر لے۔
خیال کیا جاتا ہیں کہ جماعت اسلامی کے امیدوار محمد غفار نے کا غذات واپس لئے ہیں ، جبکہ گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کا اس حلقہ پر مکمل ووٹ 1265تھا، خیال ظاہر کیا جاتا ہیں کہ یہ ووٹ مذہبی پارٹی کے بنا پر جے یو آئی کے امیدوار علی شاہ خان کے حق میں استعمال کیا جائے گا۔
اچکزئی گروپ کے مختیار خان یوسفزئی بھی امیدوار ہیں لیکن حسب سابق دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔
تحصیل خوازہ خیلہ سٹی میں ڈاکٹر حیدر علی خان کی اکثریت ہیں اور ساتھ ہی شاہی خان بھی ہیں جبکہ تحصیل خوازہ خیلہ کے پہاڑی علاقوں میں علی شاہ خان اور سردار خان کا مقابلہ ہوگا۔ تحصیل چارباغ میں علی شاہ خان کی اکثریت واضح ہیں،اور ڈاکٹر حیدر علی اورسردار خان کی پوزیشن بالتر تیب دوسری اور تیسری بنتی ہیں۔
یہ سروے عوامی رائے پر مبنی ہے، لیکن حتمی فیصلہ اس وقت ہوگا جب عوام اپنی رائے حق دہی کا استعمال کرینگے ،تو جو بھی امیدوار جیت جائے عوام اس سے حلقے کیلئے تعمیراتی کام کرنے کی امید لگائیں گے۔
1,204 total views, 2 views today