تحریر خورشید علی
سوات کے حسین وادی کالام کا ذکر اتے ہی حسین وادیوں، خوبصورت اور گھنے پہاڑوں اور اب شاروں کی خیالات ذہن میں انے لگتے ہیں، اس وادی کو جہاں قدرت نے بے پناہ فیاضیوں سے نوازا ہے ،وہی اس پر حکومت وقت بھی مہربان ہے،اگست کے اس مہینے میں جب ملک بھر میں سورج اگ برسا رہا ہے تو اہلیان کالام اور کالام پہنچنے والے سیاح حسین مناظرکو سورج کی روشنی میں دیکھتے اور اس سے لطف اندوز ہوا کرتے ہیں، نہ گرمی نہ پسینہ ، اوپر سے بجلی بھی چوبیس گھنٹے دستیاب ہوتی ہے
وادی کالام پاکستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پر بجلی لوڈشیڈنگ اورکم وولٹیج کا نام ونشاں تک نہیں ہے۔ اور یہ اسلئے ممکن ہوا جب صوبائی حکومت اور سرحد رورل سپورٹ پروگرام نے کالام سے دو کلومیٹر اگے اشون کے مقام پر بجلی گھر بنایا، جہاں سے پورے کالام کو سال کے بارہ مہینے اور چوبیس گھنٹے بلا کسی تعطل بجلی دستیا ب ہوتی ہے ۔
اشورن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو سال 2014 میں تحریک انصاف حکومت نے برسر اقتدار انے کے بعد شروع کیااور سال 2016 تک اس پاور پراجیکٹ کو ایس ار ایس پی کی مدد سے مکمل کرلیا،اس ہائیڈرو پاور سٹیشن کو دریائے نکھر کے پانی پر تعمیر کیاگیا ہے، یہ ہائیڈرو پاور سٹیشن دو حصوں پر مشتمل ہے اور ہر حصہ600kw مقدار میں بجلی پیدا کررہی ہے، جس کو اہلیان کالام کے علاوہ چودہ کلومیٹر تک صارفین استعمال کررہے ہیں۔
ہائیڈرو پاورسٹیشن میں کام کرنیوالے مکینیکل انجنیئر زاھد اللہ خان کے مطابق اس بجلی گھر سے 450ہوٹلوں، دکانوں کے علاوہ 14 کلومیٹر تک گھریلو اور کمرشل صارفینکو بجلی دستیاب ہوتی ہے،اس پاورسٹیشن کو 2016 میں مکمل کیا گیااور تین ماہ تک اس کوٹیسٹ بنیادوں پر چیک کیا گیاتاکہ اگر کوئی خرابی ہوتو اس کو دورکیا جا سکے ۔
خوش قسمتی سے اس وادی کے لوگوں کو اس بجلی گھر سے رعائتی نرخوں پر بجلی بھی میسر ہے ، گھریلو صارفین تین روپے جبکہ کمرشل صارفین پانچ روپے فی یونٹ متعلقہ محکمہ کو بل کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔پاور سٹیشن میں کام کرنے والے الیکٹریکل انجنیئر رحمت علی کے مطابق اس پاورسٹیشن کو 70 کیوسک پانی پر بنایا گیا ہے، جس میں دو یونٹ لگے ہیں، ہر یونٹ ایک جیسے مقدار میں بجلی پیدا کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ اس میں لگی مشینری چائنا سے منگوائی گئی ہے۔
وادی کالام سے تعلق رکھنے والے صحافی عزیز کالامی کے مطابق اشورن ہائیڈرو پاورسٹیشن سے قبل چھوٹے چھوٹے ٹربائن پورے وادی میں لگے تھے، جس سے لوگوں کو بجلی میسر تھی، وہ ٹربائن اکثر خراب ہوجاتے تھے تو کئی دنوں تک بجلی کی سپلائی معطل ہوتی ، لیکن اشور ن میں بننے والے بجلی گھر سے صارفین کو نہ صرف بجلی کم قیمت پر مل رہی ہے بلکہ اس میں خرابی بھی نہیں اتی ، اکثر اوقات چوبیس گھنٹوں میں صرف ادھا گھنٹہ بجلی اسلئے بند کردی جاتی ہے کہ ٹربائن کو ارام دے سکیں۔ انہوں نے کہا کہ کالام سے لیکر گبرال اور مہوڈنڈ تک ایسے بے شمار مقامات ہیں جہاں پر بہت سے ایسے چھوٹے پراجیکٹ کم لاگت اور کم وقت میں تعمیر ہو سکتے ہیں، اگر حکومت چاہے توجس سے پورے سوات کے علاوہ مالاکنڈڈویژن کے عوام مستفید ہو سکیں گے۔
اشورن ہائیڈروپاور سٹیشن سے ایک طرف تو بجلی کی پیدوارسے مقامی لوگوں مستفید ہورہے ہے تو اس کا دوسرا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس بجلی گھر سے علاقہ میں روز گار بھی لوگوں کو مل گیا ہے مختلف انجنیئر ، سرویئر، اور دیگر عملہ کالام سے تعلق رکھتا ہے ، جن کو مزید تجربہ کیساتھ ساتھ تنخواہ بھی مل رہی ہے۔
اس منصوبے کی افتتاحی تقریب میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان خود ائے تھے، جن کو کالام میں اس پراجیکٹ کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تھی ، بریفنگ کے دوران عمران خان نے پراجیکٹ کی سیفٹی اور سیلاب سے اس کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے سوالات بھی اٹھائے ، جن کی تسلی بخش جوابات دینے کے بعد اس پر کام شروع کرنے کیلئے ایس ار ایس پی کو دیا گیا۔پہاڑوں میں ایک بڑی نہر ایک کلومیٹر تک نکالی گئی جو کہ مشکل ترین کام تھا،اور اس پانی کو ٹربائن تک لایا گیاہے ۔جس سے بجلی کی پیداوار شروع کی گئی۔
اشورن ہائیڈرو پاورسٹیشن سے قبل کالام میں ہوٹل والوں کو بھی بجلی کی حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا اور خصوصا سیلاب کے بعد ان کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا تھا تاہم اب اس پراجیکٹ کی بدولت ہوٹلوں کو چوبیس گھنٹے بجلی بھی مل رہی ہے اور ساتھ اس کی قیمت بھی کافی کم ہے۔
گجر گبرال اور مہوڈنڈ سے شروع ہونے والے دریائے سوات پر اشورن ہائیڈرو پاورسٹیشن کی مقام کی طرح طرح ہزاروں مقامات موجود ہیں، جن پر چھوٹے چھوٹے بجلی گھر لگائے جاسکتے ہیں ،جس کو کم لاگت اور کم وقت میں تعمیر کرکے بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے ، لیکن حکومت شائد ابھی ان منصوبوں پر غور نہیں کررہی ہے ، بڑے بڑے بجلی گھروں کی بجائے اگر فوری طور رپ ان چھوٹے بجلی گھروں پر مالاکنڈڈویژن میں کام شروع کیا جائے تو اتنی بجلی پیدا ہوگی جو ملک کی ضروریات کیلئے پوری ہوگی، پھر حکومت کیساتھ وقت ہوگا وہ باشا ، داسو، کالاباغ سمیت دیگر بڑے منصوبے شروع کریں ، بصورت دیگر 2030 میں بھی بجلی کا یہ حال ہوگا
1,582 total views, 2 views today