تحریر ؛۔ گوہر علی گوہر ؔ
ضلع ملاکنڈ میں گزشتہ ایک ماہ سے لیوی کی جگہ پولیس مجوزہ تعیناتی کی اطلاعات اور افواہوں نے نہ صرف سیاسی ماحول کر گرما دیا ہے بلکہ ٹریڈ یونین بٹ خیلہ سمیت تھانہ ، درگئی اور سخاکوٹ کے تاجر تنظیمیں پولیس تعیناتی کے خلاف اول دستے کا کردار ادا کررہے ہیں جن کی کال پر گزشتہ ہفتے بٹ خیلہ ، تھانہ، درگئی اور سخاکوٹ کے چاروں بڑے بازاروں میں شٹر ڈاؤں ہڑتال کرکے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ شٹر ڈاؤن ہڑتا ل کو کامیاب بنانے کے لئے تحریک حقوق تحفظ ملاکنڈکی طرف سے بٹ خیلہ میں اور انجمن تاجران سخاکوٹ کی طرف سے سخاکوٹ میں سیاسی جماعتوں کے قیادت کے ساتھ الگ الگ اجلاسیں منعقد کی گئی جس میں پی ٹی ائی کے علاوہ باقی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے شرکت کرکے پولیس تعیناتی کو مسترد کردیا گیا۔
دوسری طرف وزیر اعلیٰ کے مشیر شکیل خان ایڈوکیٹ اور ایم این اے جنید اکبر کی طرف سے اس ایشو پر کوئی خصوصی اجلاس تو طلب نہیں کیا گیا ہے مگر پارٹی کے کارنرز میٹنگز اور شمولیتی تقریبات میں وہ کھل کر ملاکنڈ میں پولیس تعیناتی کی حمایت میں اظہار خیال کرتے ہیں اور ملاکنڈ میں لیوی کی نسبت پولیس تعیناتی کی حمایت کرتے ہیں کہ لیوی جو کہ فیڈرل فورس ہے اور لیوی فورس کی تنخواہیں پولیس فورس سے پچاس فیصد کم ہے جبکہ فیڈرل فورس ہونے کی وجہ سے انہیں تھانوں میں بنیادی ضروریات اور سہولیات کے لئے فنڈ دستیاب نہیں ہوتا، جبکہ پولیس فورس جوکہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہوتے ہیں انکی تنخواہیں اور دیگرمراعات بھی لیوی سے زیادہ ہے اس وجہ سے وہ پولیس تعیناتی کے حمایت میں مدلل دلائل پیش کرکے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں، شکیل خان ایڈوکیٹ کا جلسوں سے خطابات میں یہ بھی کہنا ہے کہ لیوی فورس کو ختم نہیں کیا جارہا بلکہ اس میں شامل تعلیمافتہ جوانوں کو پولیس میں ضم کرکے ان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ ہوگا اور ملاکنڈ کے جوانوں کو بھی پولیس فورس میں اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کا موقع ملے ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس تعیناتی کے خلاف اواز اٹھانے والوں نے خودساختہ طور پر ٹیکس کے نفاذ کا شوشہ چھوڑ دیا ہے صوبائی حکومت کو ملاکنڈڈویژن میں ٹیکس کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں اور وہ خود بھی ٹیکس نفاذ کے خلاف ہے ، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس تعیناتی سے اگر ٹیکس نافذ ہوتی تو ملاکنڈ ڈویژن کے تمام اضلاع دیر اپر ، دیر لوئر، شانگلہ، بونیر، سوات اور چترال میں پولیس پہلے سے تعینات ہے مگر وہاں پر ٹیکس نہیں ہے ، لیوی اہلکاروں کی سپورٹ وہ لوگ کررہے ہیں جن کی حجروں میں لیوی اہلکار ان کی خدمات پر مامور ہیں اور یا ان کے ٹیلی فون کال پر پکڑ دھکڑ کرتے ہیں۔ایم این اے جنید اکبر کا بھی یہی موقف ہے جو شکیل خان نے اپنا رکھا ہے ۔
پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کے خلاف بٹ خیلہ میں 28 دسمبر کو ااس قدر مکمل شٹرڈاؤن رہی کہ اس دن ہوٹلز ، میڈیسن سٹورز، تندویں اور سبزی دکانات تک بند رہی جس کی وجہ سے ضرورت مندوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ، انجمن تاجران بٹ خیلہ کے صدر حاجی شاکراللہ خان کی کال پر ضلع بھر میں پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کے خلاف مکمل شٹر ڈاؤں ہڑتال رہی مظاہرین نے بٹ خیلہ میں جی ٹی روڈ پر ٹائریں جلا کر ہر قسم ٹریفک کو پانچ گھنٹے تک بلاک کردیا جس کی وجہ سے سوات دیر اور چترال سے پشاور اسلام اباد جانے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا ، مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے ٹریڈٖ یونین کے صدر حاجی شاکراللہ ، جنرل سیکرٹری ملک دل نواز ، جماعت اسلامی کے سابق صوبائی وزیر شاہ راز خان،سابق ایم این اے سید بختیار معانی، اے این پی کے ضلعی جنرل سیکرٹری اعجاز خان، جے یو ائی کے ضلعی نائب امیر مولانا جاوید، قومی وطن پارٹی کے محمد ابرار یوسفزئی ،محمد ادریس، مسلم لیگ ن کے نورکرم ، پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری محمد صدیق نے خطاب کرتے کہا کہ ملاکنڈ قانونی لحاظ سے ٹیکس فری زون ہے او ر یہاں کے عوام کسی طور پر بھی ٹی ایم اے اور دیگر اداروں کی طرف سے ٹیکس نفاذ کو قبول نہیں کریں گے ، انہوں نے کہا کہ ملاکنڈ میں امن وامان کے بحالی کے لئے ملاکنڈ لیوی فورس بہتر ڈیوٹی انجام دے رہی ہیں صوبائی حکومت کی طرف سے یہاں لیوی کے بجائے پولیس تعیناتی کو مسترد کرتے ہیں اگر پولیس نے یہاں انے کی کوشش کی تو ان کا راستہ روکنے کے لئے سڑکوں میں دھرنا دے کر احتجاج کریں گے ،
انہوں نے کہا کہ پی ٹی ائی کے ایم پی اے شکیل خان نے پولیس تعیناتی کے حمایت میں بیان دے کر پوری قوم کی توہین کی ہے اس لئے وہ فوری طور پراپنا بیان واپس لیں ورنہ ان کے خلاف بھی احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ضلع ناظم ملاکنڈ کی طرف سے اس ایشو پر ہنگامی طور پرضلع کونسل کا اجلاس چار جنوری کے بجائے 28 دسمبر کو بلاگیا گیا جس میں ملاکنڈمیں ٹیکس نفاذ اور پولیس تعیناتی کے خلاف قرار داد منظور کی گئی ، اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ضلع ناظم سید احمد علی شاہ باچا نے کہا کہ ملاکنڈمیں پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کو مسترد کرتے ہیں ، پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کے خلا ف ضلعی نظامت اور کونسل رکنیت سے مستعفی ہونے کو تیار ہوں مگر ملاکنڈ کے عوام اور سیاسی جماعتوں کے مشاور ت کے بغیر کسی نظام کو قبول نہیں کریں گے اجلاس کی صدارت کنوینر کرنل (ر) ابرار حسین یوسفزئی کی غیر موجودگی میں ضلعی کونسلر فرید خان نے کی جس میں مرد و خواتین ممبران نے بھرپور شرکت کی، ضلعی کونسلر حاجی فدا نے قرار داد پیش کی کہ ملاکنڈ میں مجوزہ ٹیکس نفاذ اور پولیس تعیناتی کو ہم مسترد کرتے ہیں کونسل ممبران ، مہابت خان، امجد علی شاہ، صدام حسین ، جہان باچا، اسماعیل، حاجی اکرم ، حاجی طیب،مولانا راشد نورانی، تحسین اللہ ، فضل منان ، مصور غازی، سفید خان ، سید نذیر باچا،عتیق خان ، لیڈی کونسلرز شاہی رخسن، نے متفقہ طور پر قرار داد کی منظوری دی اور ملاکنڈمیں پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کے خلاف اخری حد تک جانے کا اعلان کیا ، ضلع ناظم نے کہا کہ ملاکنڈ ایک پسماندہ علاقہ ہے یہاں لیوی پولیس سے بہتر انداز میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں گزشتہ طالبانائزیشن میں قریبی اضلاع کے پولیس ڈیوٹی چھوڑ کر بھاگ چکے تھے جبکہ ملاکنڈ لیوی اہلکاروں نے ڈٹ کر ڈیوٹی انجام دی اس لئے وہ ملاکنڈلیوی خاتمے اور پولیس تعیناتی کے حق میں نہیں ، اجلاس اختتام پر کونسل ممبران نے ضلع ناظم کے قیادت میں سیکرٹریٹ سے مین بازار تک احتجاجی واک کیا ، شرکاء نے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر’’ پولیس تعیناتی اور ٹیکس نامنظور‘‘ کے نعرے درج تھے ۔
ملاکنڈ میں پولیس تعیناتی کے خلاف عوامی تحفظات اور خدشات کے بعد پی کے 98 سے پی پی پی کے منتخب ایم اپی اے محمد علی شاہ باچا نے اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویش خٹک سے ملاقات کرکے انہیں ملاکنڈکے عوام کو تحفظات اور خدشات سے اگاہ کیا ، جس پر ان کی طرف سے جاری کردہ اخباری بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے انہیںیقین دلا یا ہے کہ ملاکنڈمیں پولیس تعیناتی کا کوئی پروگرام نہیں اس وجہ سے ملاکنڈکے عوام مطأین رہے ، محمد علی شاباچا کے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے دوسرے روز پی ٹی ائی کی ملاکنڈ سے منتخب قیادت وزیر اعلیٰ کے مشیر شکیل خان ایڈوکیٹ اورایم این اے جنید اکبر نے دیگر کارکنوں کے ہمراہ وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے ملاکنڈ کی صورت حال پر بحث کی۔ ایم این اے جنید اکبر نے اس ملاقا ت کے حوالے سے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے انہیںیقین دلایا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس نفاذ کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں جبکہ لیوی کی جگہ پولیس تعیناتی کے سلسلے میں عمائدین علاقہ اور دیگر سٹیک ہولڈر ز سے مشاورت کی جائیگی۔
مذکورہ دونوں ملاقاتوں کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی طرف سے کوئی پریس ریلیز یا اخباری بیان جاری نہیں ہوا بلکہ ملاقاتیوں کی طرف سے یہ بیانات سوشل میڈیا اور اخبارات کو جاری کی گئیجس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیر اعلیٰ نے دونوں ملاقاتوں میں ملاقاتیوں کی تسلی کے لئے ان سے باتیں کی ہیں اور ان دونوں ملاقاتوں سے صوبائی حکومت کی پولیس کے حوالے سے پالیسی کھل کر سامنے نہیں اتی ، اس وجہ سے ملاکنڈ کے عوا م یہاں پولیس تعیناتی اور ٹیکس نفاذ کے حوالے شکوک و شبہات کا شکار ہے ، کیونکہ یہاں پولیس ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں بھی سامنے ائی ہے کہ صوبائی حکومت نے ملاکنڈ میں پولیس تعیناتی کے لئے انتطامات مکمل کرکے پولیس فورس میں ملاکنڈ سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں اور افسران کی فہرستیں بھی مرتب کی ہے جبکہ تھانوں کے لئے فنڈ بھی مختص کیا گیا ہے ، ان اطلاعات میں کس حد تک صداقت ہے یہ انیو الا وقت ثابت کریگا، کیونکہ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ ملاکنڈمیں پولیس تعیناتی صوبائی حکومت نہیں بلکہ سیکورٹی فورسز کے تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں کی جارہی ہے ۔
2,366 total views, 2 views today