ریاستِ سوات کی سو سال پورے ہونے کی یاد میں خپل کور فاؤنڈیشن مکانباغ مینگورہ سوات میں سواستو آرٹ اینڈ کلچرل ایسوسی اور اسلام پور کاٹیج انڈسٹری ایسوسی ایشن کے توسط سوات کی سو سالہ تقریبات کے سلسلے میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ پروگرام کے ترتیب کنندہ عثمان اولس یار تھے۔ چیف گیسٹ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ شیر محمد خان (ریٹائرڈ جسٹس) اور میزبان شہزادہ شہر یار امیر زیب راہنما پیپلزپارٹی کے علاوہ مختلف شعبۂ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکا اور مقررین نے شرکت کی۔ تقریب میں سیاسی اور سماجی شخصیات کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے شرکا کو تقریر کرنے کا موقع دیا گیا۔ پروگرام کا دورانیہ پانچ گھنٹوں پر محیط تھا۔ سیمینار میں آرکیٹیکٹ شوکت شرار، ڈاکٹر محمد علی دینا خیل، پرنسپل سروش اکیڈمی احمد شاہ خان، واجد علی خان راہنما اے این پی،ایڈووکیٹ عطااللہ جان، ایڈووکیٹ شمس بونیرے، زاہد خان صدر آل سوات ہوٹل ایسو سی ایشن، کالمسٹ روح الامین نایاب، کالمسٹ فضل محمود روخان، مراد آرٹسٹ وغیرہ نے کافی ریسرچ کرتے ہوئے سیر حاصل گفتگو کی۔ شرکا نے جن اہم نِکات کو اٹھایا، اس تمام تر بحث کو یکجا کرکے قارئین کی نذر کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
تقریب کا آغاز تلاوت کام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد نوجوان شہاب شاہین (زلفان دی بینڈ) کی طرف سے سوات کا قومی ترانہ سنایا گیا۔ تمام شرکا ریاستی ترانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ مقررین نے یقین دلایا کہ ریاست سوات کی حکومت، تعلیم، صحت، انفرا سٹرکچر، سیاحت، فوری انصاف اور ریاست کی ترقی کے لحاظ سے یہ نظام اپنے دورکا بہترین نظام تھا۔ بلاشبہ ریاستِ سوات ایک فلاحی ریاست تھی، اس کے مکین اس کو اس لئے بھی یاد کرتے ہیں۔ان کاریاست سوات سے ایک رومانی واسطہ بھی ہے۔ کیوں کہ مذکورہ ریاست نے لوگوں کو سہولیات فراہم کی تھیں۔ ریاستِ سوات کے حکمران، سوات کو اپنا وطن اور اس کے مکینوں کو اپنے لوگ مانتے تھے۔ ریاست کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والی بااثر شخصیات نے ریاست کو اپنا رواج اور دستور حوالہ کیا جو کہ یہاں کاباقاعدہ طور پر قانون مانا گیا۔ اس لئے لوگ اس قانون کا بے حد احترام کرتے تھے۔
شہر یار امیر زیب او ردیگر شر کا نے کہا کہ ریاستِ سوات کی تعمیرات (سکولز اور کالجوں) کے علاوہ سڑکوں کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ سوات کی تاریخ کو مطالعہ پاکستان میں شامل کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ ریاستِ سوات کی تاریخ اور اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
شوکت شرار صاحب نے اہم نکتہ اٹھایا کہ کیا وجہ تھی کہ جب ہمارا قانون، رواج اور دستور اتنا اچھا تھا اور یہاں پر امن و امان تھا، تو پھر ریاست کیوں آگے نہ چل سکی؟ ان کی تجویز آئی کہ سوات میں سی پیک کی وجہ سے تبدیلی آنے والی ہے، اس کا ادراک کیا جانا چاہئے اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل بنانا چاہئے ۔
احمد شاہ صاحب نے سوات کے دور میں سکولوں اور تعلیم کا تفصیلی جائزہ پیش کیا اور کہا کہ 1922ء میں سوات کا پہلا پرائمری سکول ودودیہ کھولا گیاجس کو بعد ازاں مڈل کا درجہ دیا گیا جبکہ دوسرا سکول1925ء میں بونیر میں کھولا گیا۔ اس کے بعد سوات کے مختلف علاقوں میں پے درپے مزیدبارہ سکولز کھولے گئے۔ میانگل عبدالودود المعروف بادشاہ صاحب کی خواہش تھی اور سکولز بنانے کا پس منظر یہ تھا کہ طلبہ کو جدید مغربی تعلیم سے روشناس کرایا جائے۔ سوات میں بھی سنہ انیس سو بیس میں برٹش راج کے پولیٹکل ایجنٹ کے کہنے پر کوئی نیا سکول نہ بنانے کی دھمکی دی گئی۔ اس کے بعد تقریباً تیس پینتیس سکول کھولے گئے۔ ریاست کے الحاق کے وقت تقریباً تین سو پچاس تک سکولز اور تقریباً ہر دوسرے گاؤں میں ڈسپنسری تعمیر کی گئی تھی۔ تعلیم اور علاج مفت تھا۔ بچوں کو تعلیمی سکالر شپ اور خوراک وغیرہ سب کچھ دیا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں ریاستی تاریخ میں خدائی خدمتگار تحریک کے بانی باچا خان کے مدرسوں اورسکول سسٹم کی بھرپور مخالفت کی گئی۔جب فرد اور ریاست کا مفاد ایک ہوتا ہے، تو پھر وہ قومیں ترقی کرتی ہیں۔ چودہ نومبر انیس سو سترہ کو سٹیٹ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ بادشاہ صاحب نے بتیس سال حکمرانی کی۔ اس کے بعد سنہ 1949ء کو والئی سوات میانگل عبد الحق جہانزیب کو حکمرانی منتقل کی۔ اس طرح والئی سوات نے بھی 22 سال حکومت کی ۔
قارئین، سیمینار میں شریک مقررین نے ریاستِ سوات کی ڈھیر ساری خوبیوں کے علاوہ بہت سے امور پر تنقید بھی کی۔ واجد علی خان نے کہا کہ والئی سوات کو کہا گیا تھا کہ آپ ریاست کے لئے آئین اور قانون بنائیں اور اپنے آپ کو آئینی بادشاہ مقرر کرلیں۔ والئی سوات نے جواباً کہا تھا کہ ’’مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میں قانون کو لاگو کرکے اپنے آپ کو پابند کروں؟ میرے منھ سے نکلا ہوا لفظ قانون کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘ اس طرح انہوں نے کہا کہ لوگ اپنی زمین تک والئی سوات کے آرڈر اور قیمت کے بغیر نہیں بیچ سکتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے مشران کے ساتھ والئی سوات کا اچھا تعلق تھا۔ واجد علی خان نے اپنی تقریر میں ریاست بننے کے لئے بادشاہ صاحب کی زیر نگرانی حکومت کو انگریز وں کے بائی ڈیزائن بنانے کی بات کی اور وضاحتاً کہا کہ انگریزوں نے اپنے مفاد کے لئے ریاست کی داغ بیل ڈالی تھی۔ مطلب یہ کہ ریاست انگریزوں کے کہنے پر ترتیب دی گئی تھی۔ موصوف نے ریاست سوات کے بہت سے امور کی ستائش بھی کی۔
اس حوالہ سے عطاء اللہ جان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم سنتے چلے آرہے ہیں کہ سوات نیک پی خیل میں منعقدہ ایک جرگہ نے باشاہ صاحب کو پگڑی پہنائی تھی، لیکن اب واجد علی خان کی ریاست کے حوالہ سے ’’بائی ڈیزائن‘‘ والی منطق نے نئے سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
اس سیمینار میں بیشترمقررین کا کہنا تھا کہ اگر جرگے نے اس خاندان کو حکومت حوالہ کی تھی، تو چاہئے تھا کہ اُسی جرگے کہ توسط سے الحاق کا فیصلہ بھی کیا جاتا جو کہ درحقیقت نہیں ہوا۔
فضل محمود روخان صاحب نے ایک روداد سناتے ہوئے کہا کہ ہم ماہانہ رسالہ چھاپتے تھے۔ اس لئے میں اورفضل ربی راہی،ؔ والئی سوات سے رسالہ چھاپنے کے بعد ان کی رائے لیتے تھے۔ رسالہ پڑھنے کے دو یا تین دن بعد دوبارہ اس کی رائے پوچھنے جاتے تھے۔ ایک دن جب ہم ان کے ڈیرے پر گئے، تو وہ کافی غصہ میں لگ رہے تھے۔ہم کو دیکھتے ہی کہا کہ کیوں اس شخص (نام روخان نے نہیں بتایا) کا ا نٹرویو چھاپا گیا ہے؟ ہم نے حیرانی سے پوچھا کہ ’’جناب، وہ تو آپ کی ستائش کر رہا تھا۔‘‘ تو انہوں نے کہا کہ ’’اب یہ ستائش کر رہا ہے لیکن ان لوگوں کی وجہ سے میں مجبور ہوا تھا کہ سوات کا الحاق پاکستان سے کرادوں۔‘‘
قارئین میں سے کئیوں کو پتا ہوگا کہ اس وقت والئی سوات کے خلاف زیرِ زمین تحریکیں جاری تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ حکومت پاکستان سے الحاق کرنے کی درخواست کررہے تھے۔ پاکستان کے اخبارات میں اس کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا کرتے تھے۔
زاہد خان کا سیمینار میں اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ ریاستِ سوات میں سیاحت کافی ترقی کر رہی تھی۔ سوات کے دور افتادہ گاؤں میں پہلا فلک سیر ہوٹل بنایا گیا۔ یہاں پر انگریز اور بدھ مت کے پیروکار آتے جاتے تھے۔ یہاں پر مثالی امن و امان تھا۔ بہترین سڑکیں اور پُل بنائے گئے تھے۔اس کے علاوہ خامیاں بھی تھیں جیسے کہ جب کوئی گجر کسی زمین کے متعلق کوئی تمسک اور بیع نامہ پیش نہیں کرتے، تو اس کو بیس گواہان پیش کرنا ہوتے تھے۔
اس طرح چیف گیسٹ ایڈووکیٹ شیر محمد خان نے واجد علی خان کی بات سے اتفاق کیا اور ایک واقعہ سنایا کہ جب جہانزیب کالج کے طلبہ نے والی کے خلاف احتجاج کیا، تو اس وقت میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ ڈھیر سارے طلبہ کو قید کیا گیا اور ان پر تشد د کیا گیا۔ ان طلبہ کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لئے ہم سکول اور کلاس والوں نے احتجاج کیا۔اس احتجاج کے نتیجے میں مجھے سکول سے نکال دیا گیا۔وہ تو میری قسمت اچھی تھی کہ ایک سال بعد والئی سوات نے سوات کا الحاق پاکستان سے کردیا اور یوں مجھے امتحان میں بیٹھنے دیا گیا۔ تاہم ان کا کہناتھا کہ اس وقت انصاف عجلت کے ساتھ لوگوں کو ملتا تھا اور نظامِ انصاف ٹھیک تھا۔
روح الامین نایابؔ صاحب نے پُرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا کہ منظورِ نظر افراد کو سکالر شپ، ترقیاں اور نوکریاں دی جاتی تھیں۔ سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہیں ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بادشاہت میں چوں کہ جبری حکومت ہوتی ہے، اس لئے اس کے ضابطے قوانین وغیرہ بعد کے اوقات میں برقرار نہیں رہ سکتے اور لامحالہ ختم ہوجاتے ہیں۔
(جاری ہے)
1,368 total views, 2 views today