ملالہ یوسف زئی نے بہت جرات ، ہمت اور بہادری کے ساتھ حصول علم کے فروغ کے ضمن میں پاکستانی بچیوں اور خواتین میں تعلیم کے پرچم کو سربلند کیا جس کی پاداش میں انھوں نے ایک خوفناک نوعیت
کے قاتلانہ حملے کا بھی سامنا کیا اور ہمت ہارنے کے بجائے پہلے سے بڑھ کر عزم اور استقلال کا مظاہرہ کیا۔
ملالہ نے دنیا کو باور کرایا کہ خواتین میں تعلیم وآگہی اور بیداری سے کوئی بھی قوم خوف زدہ نہیں بلکہ یہ تصور صرف چند لوگوں کے ذہنی اختراع ہے جو بندوق کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی مرضی کے مخصوص نظریات پوری قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
یوں توملالہ کی یوم پیدائش کو اقوام متحدہ نے ملالہ ڈے قرار دیا ہے پوری دنیا میں بارہ جولائی کوملالہ ڈے منایا جاتا ہے۔ لیکن ان کے آبائی علاقے سوات میں اس حوالے سے کوئی تقریب منعقد نہیں ہوتی۔
ملالہ ڈے کے حوالے سے سوات کی ایک طالبہ نے بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کے حملے میں زخمی ہونے والی ملالہ یوسف زئی کی زندگی کے لیے سوات کے سکولوں میں دعائیہ تقریبات جبکہ بعض سکولوں میں ختم القران بھی کئے گئے اور یہ قوم کی دعائیں ہے کہ وہ آج زندہ و سلامت اور بام عروج پر ہے لیکن یورپ کی رنگین دنیا میں وہ اتنی مگن ہوگئی ہے کہ علاقے کو ہی بھول گئی، یہی وجہ ہے کہ اب لوگ بھی انہیں بھول گئے ہیں۔‘
محکمہ تعلیم سے وابسطہ ایک اہلکار نے بتایا کہ یوں تو ملالہ پوری دنیا میں خواتین کے تعلیم کے لیے ایک نظریہ بن چکی ہے لیکن ان کے اپنے علاقے میں تعلیمی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ سوات کے مختلف علاقوں میں ایسے کئی سکول ہے جہاں معصوم بچیاں بغیر چھت اور بنیادی سہولیات کے تعلیم حاصل کررہی ہے۔
انھوں نے منگلور کے میں سیر بدر کے علاقے میں واقعے سکول کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جہاں پر چار دیواری تو ہے لیکن سکول چھت ، فرنیچر اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ جہاں سینکڑوں معصوم بچے سرما میں خون جما دینے والی سردی اور موسم گرما میں آسمان سے برستی ہوئی آگ میں کھلے آسمان تلے بیٹھ کر پڑھتے ہیں جبکہ بریکوٹ کے علاقے میں آٹھ سال پہلے تیار ہونے والا ایک سکول تا حال بند پڑا ہے اور اس گاؤں کے بچے ایک گھنٹے کی مسافت پر دوسرے علاقے میں پڑھنے جاتے ہیں۔
سوات کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ملالہ لڑکیوں کی تعلیم کا نعرہ لگا کر فنڈ بھی اکھٹا کر رہی ہے مگر آج تک اس نے کسی سرکاری تعلیمی ادارے کی بحالی یا ان میں پڑھنے والے بچیوں کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ ملالہ فنڈ سے خوشحال سکول جو ملالہ کے والد ضیاالدین کا سکول ہے کے چالیس بچیوں میں ماہانہ تین ہزار روپے وظیفہ دیا جاتا ہے جو دو سالہ منصوبہ ہے۔ اس حوالے سے مینگورہ شہر کے ایک مقامی شخص حبیب گل نے بتایا کہ ملالہ اور اس کے والد ضیاالدین پاکستان میں صرف اپنے ذاتی سکول کو ترقی دے رہے ہیں اگر اسے سوات کے غریب بچیوں کا خیال ہوتا تو وہ ملالہ فنڈ سے یہ وظیفہ سرکاری سکول میں غریب بچیوں کے لیے مختص کرتی نہ کہ پرائیوٹ سکول میں پڑھنے والے امیر لوگوں کےبچیوں کے لیے۔
ضلع سوات اور شانگلہ کے سینکڑوں سکولوں میں ہزاروں بچے اور بچیاں ملالہ کے نام سے بھی ناواقف ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر ملالہ اپنے علاقے کے بچیوں کے لیے کچھ کرتی تو یقیناً اج ان کے آبائی علاقے کی ہر بچی نہ صرف اسے جانتی بلکہ اس جیسا بننے کی کوشش بھی کرتی۔
ایک سرکاری سکول کی استانی نے بتایا کہ سوات کی بچیاں اب ملالہ کے نام سے بھی نفرت کرتی ہیں اور اس کی مثال سوات کے علاقے سیدو شریف میں گرلز کالج کے وہ طالبات ہے جس نے کالج کا نام ملالہ کے نام پر رکھنے پر شدید احتجاج کیا تھا یہی وجہ ہے کہ ملالہ ڈے کے حوالے سے کسی کو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔
581 total views, 1 views today