تحریر ؛۔ محمد گل
ہم نے آج کا دن وادی کالام کے نواح میں سطح سمندر سے تقریبا نو ہزار فٹ بلندی پر واقع وادی مٹلتان اور گلیشئیر میں گزارا۔ بعد دوپہر موٹربائیک پر سفر کا آغاز ہوا۔ عزیزم نورالحمید کے پیچھے بیٹھ کر میں نے سورج کی برستی کرنوں کی تپش اپنے پشت پر محسوس کی۔ لیکن سر پر تنا ہوا نیلا آسمان اس قدر شفاف تھا جیسے بادل، دھند یا آلودگی نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے کہیں۔ اور اتنا نزدیک کہ دل کرے تو ہاتھ بڑھا کر اس نیلی چھتری کو چھوا ہی جاسکتا ہو۔ گہرے سکوت کا عالم، اور اسی سکوت کو چیرتی ہوئی موٹر بائیک انجن کی گھن گھرج تھی۔ اردگرد ماحول نے گویا ست رنگی لباس اوڑھ رکھا تھا۔ سورج کی سنہری کرنوں کی چمک، ان کرنوں کی چھن چھن لہروں سے جنگل کے کہیں تاریک اور کہیں روشن گوشے، سبز رنگی سے جل تھل وادیوں کے دیدہ زیب مناظر، دریا کے اچھلتے، لپکتے دودھئیے پانی کے شرارے، دور چوٹیوں پر تنی ہوئی برف کی سفید تہیوں کی لشکاریں، اور ان چوٹیوں سے نیچے پہاڑوں کے وجود پر درختوں کے سلیقہ وار جھنڈ، ہر سو سکوت ایسا کہ گر انجن کی ٹرار بند ہو تو سینے میں دھڑکتے دل کی زیر و بم سماعت گزار ہوجائیں۔۔۔
مجھے بمشکل مناظر کی رنگوں کو مٹھی میں دبوچنے کی دیوانگی سے خود کو روکنا پڑا۔ محسوس ہورہا تھا گویا کسی غیر مرئی قوت نے صحرا نشین کو ان کوہ ستانوں کی سبز قالین پر پٹخ دیا ہو، جسے صحرا کی سوکھی تپش اور دم سادھ حبس سے نجات ملی ہو، اور بدلے میں اطراف کی خوشبووں، زعفران و کشت کی چھڑکیوں نے اس کے حواس کو جولانیاں عطا کئے ہوں۔ روزے کی سہ پہر سے جسمانی اضمحلال اور دماغی بوجھل پن کو زمین کی سحرخیزی نے کافور کردیا تھا۔ ہم اس ٹریک پر گامزن تھے جہاں سے آگے جھیل مہوڈنڈ، آبشار، اور گلیشئیر کی رنگین دنیائیں آباد تھیں۔ لیکن ہماری منزل گلیشئیر کی فریز سے جسمانی گرمائش کو اتارنا تھا۔ دن کے آڑھائی بجے ہم گلیشئیر کے برفی تودے سے ہم آغوش ہوئے۔ اوپر پہاڑ سے گرتے ابشار کے پانی نے برفانی تودے میں سے سرنگ کھود کر یوں رستہ بنایا تھا، گویا کسی ٹنل میں سے ریل کا گزر ہورہا ہے۔ تودے کے نیچے کھڑے ہوکر پگھلتی برف کے قطرے جب پشت پر ٹپکائے تو ہڈیوں کے گودوں تک میں سے سرد لہر گزری۔ ساتھ خنک ہواوں نے خون کی حرارت کو انجماد کے نقطے پر لاکھڑا کیا۔ اس ماحول کی تاب جسم نے محض چند منٹوں تک برداشت کی اور قبل اس کے کہ حرکتی جسم منجمد بت میں تبدیل ہوتا ہم وہاں سے کھسک گئے۔۔۔۔
واپس وادی مٹلتان کے پشت پر فخر و کبر سے سینہ پھلائے چھوراٹ کے فلک بوس چوٹی کے سامنے جب آ کھڑے ہوئے تو یوں لگا جیسے ذوالقرنین کی سیسہ پلائی دیوار کے دامن میں کسی ببل کے پتے کے نیچے دو حقیر سے بونے کھڑے ہوں۔ دیو ہیکل اس پہاڑ کے سامنے سچ معنوں میں انسانی ساخت و طاقت کی حثیت کی جانکاری ہوئی۔ دیر تلک گم صم الگ الگ پتھروں سے سرٹکائے میں اور حمید قدرت کی کبریائی کے مظاہر یک ٹک دیکھتے رہے۔ آج وقت کم تھا، سو موبائل کے آنکھ سے چوٹی کے وجود کو عکس میں مقید کرکے واپسی کی راہ لی۔ واپسی پر بڑا ملال تھا۔ جی مچل رہا تھا کہ ان خاموش دنیاوں میں جسم گم اور روح فنا کردی جائے کہ حقیقت کی دنیا میں واپسی خواب، خیال کی موت ہوتی ہے۔ معلوم نہیں کیونکر وادی مٹلتان کے آخری نکڑ پر میرے حواس معذور ہوئے، میں نے سرد ہاتھ حمید کے کندھے پر مضبوطی سے جماکر اسے رکنے کا اشارہ دیا۔ بائیک سڑک کنارے کھڑی کرکے میں اترا اور پیچھے چوٹی کی ٹھہرے ہوئے عکس کو آخری بار آنکھ کے شیشے میں اتارا۔ یہ کس لہر کی تابکاری تھی کہ گویا ساکت چوٹی نے انگڑائی لی، سانس لینے لگی، اور تخیل کے کینوس پر بال کھولے، بانہیں وا کئے محبوبہ کی طرح لپک کر مجھے آغوش میں بھرلیا۔ میرے گردن میں گرم سانسوں کی تپش سی محسوس ہوئی، یکایک کانوں میں میٹھی سی سرگوشی ہوئی، پوچھتی تھی کہ وہ محبت جس کیلئے تم نے راتیں برباد کیں، اس کی طلب میں تم شہروں کی گرد و دھول میں نیم پاگل پھرتے رہے، اور جس کی ملن کی خواہش نے تمہیں دنیا و مافیہا سے بیگانہ رکھا، کیا ہوا کہ ہزار تپسیاوں، لاکھ آرزوں، صبح و شام کی منتوں اور شب کے پچھلے پہر کی آہ بکائیوں کے بعد جب تشنہ آرزو کی تکمیل کی گھڑی، طلب وصل کی خواہش کو تعبیر مل رہی ہے تو تم پشت پھیرے واپس جارہے ہو۔۔۔۔؟؟
میرے حلق سے آنکھوں کا نمکین پانی گزر گیا، گلے پر دباو سے معلوم ہوا کہ قوت گویائی سلب ہوچکی ہے۔ سوکھے لب لرز سے گئے اور بصد زور حلق سے نحیف، بے معنی سی غراہٹ برآمد ہوئی، میں اسے کچھ بتانا چاہ رہا تھا، لیکن اس کی سپاٹ آنکھوں میں لہراتے سوالوں کی بھنور میں بس چکرا کر رہ گیا۔ میں کیسے اسے یہ بتاسکتا تھا کہ تہذیب و تمدن کی وہ دنیا جہاں میں بسیرا رکھتا ہوں۔ وہاں جسم کا بس پیٹ سے رشتہ ہے۔ محبت وہاں انہونی چیز ہے، جذب وہاں بے معنی عیاشی ہے۔ احساس کا نام وہاں وقت ضیاع ہے۔ وہاں محبت، وارفتگی، اور خواب بیچے جاتے ہیں اور پیٹ بھرے جاتے ہیں۔ میں محبت کی دیوی چھوراٹ کی چوٹی سے اظہار حقیقت کی تاب نہ لاسکا۔ میں نے ہلکے سے اسے جاں سے الگ کیا، اور سر جھکائے واپسی کی راہ لی۔۔۔ پیچھے وہ حیرت و یاس کی بت بنی مجھ بے وفائی کے مرتکب مجرم کو بس تکتی رہ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔!!
2,480 total views, 2 views today