تحریر : وطن زیب یوسفزئی
سپریم کورٹ اف پاکستان کے ہاہر کھڑے ہوکر زور زور سے چیخیں مار کر کہتاتھا کہ نوازشریف نااہل ہو گیا ، نواز شریف نااہل ہو گیا۔ نواز شریف اب وزیر اعظم نہیں رہا۔ میں نے سمجھا شاید اپوزیشن کا کوئی بندہ ہے۔ لیکن جب میں نے دیکھا تو وہ ایک صحافی تھا۔ اور وہ بھی ایک ایسا صحافی کہ اس کا شمار ملک کے بڑے بڑے صحافیوں میں ہوتا ہیں۔تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ یہ ہمارا صحافتی معیار ہے۔ سب سے پہلے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ صحافی اور تجزیہ کار میں فرق کیا ہے۔صحافی کا کام ہے۔ خبر دینا ،چاہے اچھاہو یا برا اور خبر متوازن ہونی چاہیے خبر غیر جانبدار ہونی چاہیے اور خبر میں دو طرفہ موقف ہونی چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں ایسا نہیں ہے ۔ تجزیہ کار کا کام ہے تجزیہ دینا اس صورت میں جب کوئی ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں بلایا ہوں ۔ تو پھر اپ اخلاق کے دائیرے میں رہ کر اپنا تجزیہ دے سکتے ہوں۔
لیکن بطور ایک عام صحافی اور وہ بھی ڈیوٹی کے وقت اپ خبر کو تجزیے کا رنگ نہیں دے سکتے ۔ جس صحافی کی بات میں اپ لوگوں سے کرناچاہتاہوں وہ پاکستان کی ایک بہت بڑی نیوز چینل کے اسلام اباد کا بیوروچیف ہے۔ جس طرح انھوں نے نوازشریف کے نااہل ہونے کا کوریج کی تو ایسا معلوم ہورہاتھا کہ ان دونوں کی بیچ میں ذاتی دشمنی ہے۔اور اج بھی وہ اپنا ٹاک شو کررہا ہے ۔سلیبرٹی بناہوا ہے ہمارا ور اپ لوگوں کا اوپینین بلڈ کررہاہے۔ مگر بدقسمتی سے صحافت میں ان جیسے پڑھے لکھے جاہل لوگ ایے ہیں جنھوں نے صحافت کو بدنام کیا۔جو صحافت کے ا،ب بھی نہیں جانتے ۔ اچانک کیمرہ اگیا اچانک مایک اگیا اور اچانک وہ ایک بڑا سٹار بن گیا۔ لیکن جب ان لوگوں سے پوچھاجائے کہ بھائی مجھے یہ بتائے کہ یہ چان بین کیا چیز ہے(یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں ایڈیٹر خبروں کے چان بین کرتا ہے) یہ ایڈیٹوریل بورڈ کیا چیز ہے ۔ تو میرے خیال میں ان کے پاس خاموشی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔درحقیقت صحافی معاشرے کا وہ شخص ہوتا ہے کہ ان سے لوگ اپنے مسایل شیر کرتے ہیں۔چونکہ صحافی معاشرے کی آواز ہوتاہے۔اب یہ اپ لوگوں پر ہے کہ بطور ایک عام آدمی اپ لوگوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہیں کہ وہ ایسے ٹی وی چینل اور خاص طور پر ایسے صحافیوں کو سنے کہ ان کی باتو ں میں سچائی ہوں۔بے شک ایک صحافی تنقید کرسکتاہے لیکن بنقید برائے اصلاح نہ کے تنقید برائے تنقید ۔
1,614 total views, 2 views today