جب بھی کسی ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی نہ ہو، ملکی اداروں کااحترام نہ ہو حقدار کو اس کا حق نہ ملے، مظلوم کی دادرسی نہ ہو، جہاں ظالم کو اثرورسوخ کی بنیادپر مظلوم پر فوقیت حاصل ہو، جہاں عام آدمی کو ضروریات زندگی کی بنیادی اشیاء میسر نہ ہو، اقربأ پروری کرپشن، رشوت ستانی اور سفارش کا بازارگرم ہو جہاں بیروزگاری اشیاء خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہو۔
جہاں غریب روٹی کے لیے ترس رہاہو۔ غریب، غریب ترہورہاہو جہاں اپنے ہی ذاتی مقاصدکے حصول کے لیے آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ کر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون ہوتوپھر تنگ آمدیہ جنگ آمدہی ہو۔
اگر ہم گزشتہ چار دھائیوں سے اپنے سیاستدانوں کے کارناموں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتاہے کہان لوگوں نے ملک کو لوٹنے کے علاوہ اس ملک کو کچھ نہیں۔ دیا ملک کو دوٹکڑے کرنے کے ذمہ دار بھی یہی سیاستدان تھے ملک میں پے درپے مارشل لاء لگانے کے ذمہ دار بھی یہی سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے کالے قوانین جیسے NROC LFOاٹھارویں ترمیم کو قانونی حیثیت دینے کا کارنامہ بھی انجام دیا۔ عوام نے باربار ان لوگوں کو آزمایا لیکن ان لوگوں کو ان سے صر مایوسی، افلاص اور بدامنی کے سوا کچھ نہیں ملا، اس ملک میں پارلیمنٹ ناکام ہوچکاہے۔ عدلیہ صحیح طور پر اپنے فرائض منصبی انجام دینے سے قاصر ہے لوگ بدامنی، لاقانونیت، دہشت گردی، بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں۔ لوگ امن چاہتے ہیں، روزگار چاہتے ہیں، خوشحالی چاہتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے سیاسی لیڈران کچھ نہ دے سکے یہی وہ جو بات ہیں کہ لوگ اب مایوس ہوچکے ہیں اور انقلاب کی راہ تک رہے ہیں۔بے شک اس وقت ہمیں طاہرالقادری اور عمران خان صاحبان کے ساتھ بعض باتوں اور اقدامات پر اختلاف ہوسکتاہے۔ لیکن انہوں نے پسی ہوئی عوام کی دُکھتارگوں کو چھیڑاہے اور وہ جانے انجانے فطری طور پر ان کے حامی ہیں سچ بتاؤ تو تاریخ میں یہی دوہستیاں ہیں جنہوں نے انقلابی اور آزادی مارچ کے بدولت مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کی آواز اقتدار کے ایوانوں اور پاکستان کے نام ونہاد سیاستدانوں تک پہنچا کر ان کے ہوش اڑانے ہیں اور غریب کے مسائل کا احساس دلایاہے۔
اگر قادری اور عمران خان کے ان دھرنوں سے اقتدارکے ایوانوں میں بیٹھے سیاستدانون نے سبق نہیں سیکھا۔ تو پھر ایک ایسی انقلاب انتظار کریں جو ائرکنڈیشن کنٹینروں میں بیٹھ کرنا ناچ گانوں سے نہیں، نہ چھوٹی قسمیں کھانے سے بلکہ یہ ایسا انقلاب ہوگا جسمیں ملک کے 85فیصد پسے ہوئے عوام شامل ہونگے۔ پھر نہ کوئی لیڈر رہیگا نہ کوئی وڈیرہ، نہ سردار اور نہ کوئی ادارہ، لہٰذا ایسے انقلاب سے بچنے کے لیے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ اس ملک اور عوام کے لیے کچھ کریں افسوس کی بات ہے کہ آج بنگلہ دیش بھی معاشی لحاظ سے ہم سے بہتر ہے کیونکہ وہاں آئیں اور قانون کی حکمرانی کی روایات چل پڑی ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کو چاہتے کہ وہ اپنے ہمسایہ ممالک سے سبق سیکھ لیں میں آئین اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں ملک سے بدامنی، اقربا پروری، دہشت گردی، بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں ورنہ پھر ’’انقلاب فرانس‘‘ جیسے انقلاب کے لیے تیار رہے یہ انقلاب ایک دن ضرور آنی ہے۔
668 total views, 2 views today