تحریر ؛۔ خورشید علی
عالیہ ایک بیوہ خاتون ہے ان کی عمر تیس سال ہے اور تین بچوں کی ماہ ہے، تحصیل مٹہ کے دو ر افتادہ گاؤں مانڈل ڈاگ سےحال ہی میں مینگورہ شہر منتقل ہوئی ہے جہاں پر وہ دو کمروں پر مشتمل کرایہ کے گھر میں رہائش پذیر ہے،ایک کمرے میں عالیہ نے کپڑے رکھے ہیں جس کو بھیج کر ہونے والے منافع کو عالیہ اپنے تین بچوں ، ماں اور بہن کی اخراجات پوری کرتی ہیں۔ عالیہ کہتی ہے کہ میری پیدائشمینگورہ میں ہوئی، ایف اے کرنے کرنے کے بعد میری شادی مٹہ کے رہائشی رحمت اللہ سے ہوئی ، اور میں اپنے شوہر کیساتھ ایک خوشحال زندگی گزارنی لگی،اس دوران اللہ نے مجھے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے بھی نوازا۔ اور پھر نہ جانے ہمارے علاقے کو کس کی نظر لگ گئی، کہ 2007میں ہمارا علاقہ دہشت گردوں کی نرغے میں آگیا اور جس گاؤں میں میر ی شادی ہوئی تھی وہ دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر بن گیا،.
دو ہزار نو میں جب پورے سوات کو دہشت گردوں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا تو بہت سے لوگوں نے گاؤں کو چھوڑ دیا لیکن ہمارے خاندان والے وہی رہے اور پھر اکتو بر 2009کی وہ بھیانک رات بھی ائی جب مسلح افراد نے ہمارے گھر پر دھاوا بول دیا اور میرے شوہرکو اٹھاکر لیکر چلے گئے ۔تقریبا نو دنوں تک ان کو طرح طرح کی اذیتیں دینے کے بعد ان کو قتل کردیا گیااور میری ہنسی بستی دنیا اجھڑ گئی ۔یہ صرف ایک
عالیہ کی کہانی نہیں بلکہ سوات میں سینکٹروں ایسے بیوہ خواتین ہے جن کے شوہر
یا تو دھماکوں کے نذر ہوگئے یا دہشت گردوں نے ان کو ابدی نیند سلا دیا، عالیہ کہتی ہے کہ شوہر کے وفات کے بعدمیری دنیا اجھڑی ہی تھی لیکن میرے سسر ، ساس اور دیوروں سمیت خاندان کے ہر فرد نے مجچھ کو غلاموں سے بھی کم تر حیثیت دی دہشتگردی کے دوران مرنے والے لوگوں کے لواحقین کو حکومت کی طرف سے جو امداد دی جاتیہے ، وہ بھی میرے سسر نیہڑ پ کر لی، اور مجھے ایک پیسہ بھی نہ دیا ۔تبھی مجھے احساس ہوا کہ اپنے بچوں کی بہتر مستقبل کیلئے مجھے کچھ کرنا ہوگا، میں نے اپنے خاندان سے ٹیچنگ کرنے کی اجازت طلب کی تاکہ اپنے بچوں کی پڑھائی اور ان کے اخراجات پورے کرسکوں ، لیکن خاندان والوں نے مجھے دھمکا کر خاموش کرنے پر مجبور کردیا، مجھے اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا نظر انے لگا تو میں اپنے باپ کے گھر مینگورہ ائی ۔ جہاں پر میں نے نئے سرے سے زندگی بسر کرنے بارے سوچنا شروع کردیا۔
عالیہ کہتی ہے کہ مٹہ میں رہائش کے دوران میرے والد نے مجھے ایک دن یو ایس ایڈ کے پروگرام نوید زندگی بحالی حیات سے اگاہ کیادہشتگردی سے متاثرہ بیوہ خواتین کو روزگار کیلئے کاروباری امداد فراہم کرتے ہے ، میں نے بھی اس پروگرام سے مستفید ہونے کے بارے میں سوچنا شروع کیا، افتاب نامی شخص جو کہ اس پروگرام کا نمائندہ تھامجھ سے میری کوائف مانگ لیئے اور پوری تسلی دی کہ نوید زندگی بحالی حیات پروگرام کی طرف سے کاروباری امداد اپ جیسے بیوہ خواتین کیلئے ہے تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں، عالیہ کہتی ہے کوائف لینے کے بعد کوئی چار پانچ ماہ بعد مجھے روزگار پروگرام کا سامان دیا گیا،جس میں مرد و خواتین کے کپڑے تھے، ان کپڑوں کو میں نے ایک کمرے میں رکھ دیئے اور اپنے محلے کے لوگوں کو سستے قیمت پر فروخت کرنے لگی، پہلے مہینے مجھے دس ہزار روپے منافع ملا جس سے میرے گھر کے تمام اخرا جات پورے ہوئے ، اور یوں مشکل زندگی میں توڑی بہت اسانی انے لگی، کیا وہ کپڑے معیاری اور لوگوں کو اپنے جانب متوجہ کرنے والی تھی اس سوال کے جواب میں عالیہ کہتی ہے کہ ان کپڑوں میں سے کچھ کپڑے رنگ چھوڑ دیتے تھے ، جس کو لوگ خرید کر واپس کردیتے تھے، انہوں نے کہا کہ مردوں والے کپڑوں کی بجائے اگر صرف خواتین کے کپڑے دیئے جاتے تو منافع اور بھی زیادہ ہو جاتا۔
یو ایس ایڈ کے نویدزندگی بحالی حیات پروگرام کے حوالے سے خپل کور فاؤنڈیشن کے ارگنائزر محمد علی کہتے ہیں کہ اس پروگرام سے دہشت گردی سے متاثرہ افرا د مستفید ہورہے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے،کیونکہ گزشتہ چند عرصے سے جاری دہشت گردی جو اب بھی جاری ہے میں بہت زیادہ تعداد میں لوگ متاثر ہوئے ہیں اور ان کے کاروبار تباہ ہوئے ہیں ، ا س پروگرام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا نا چایئے جبکہ اس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔
نوید زندگی بحالی حیات پروگرام صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا میں اپریل 2012 سے جاری ہے اور دہشت گردی سے متاثرہ قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کے اضلاع کے ہزاروں لوگ اس مستفید ہو چکے ہیں،نوید زندگی بحالی حیات پروگرامکے میڈیاکوارڈینیٹرنویدیوسفزئی نے کہا کہ یو ایس ایڈ اس پروگرام کے تحت ان متاثرین کو کاروبار کیلئے امداد فراہم کررہی ہے، جو اپنے پیاروں کو دہشت گردی کی وجہ سے یاتو کھو چکے ہیں یا زخمی ہو چکے ہیں ،انہوں نے کہا کہ ابتک ملاکنڈڈویژن سمیت دہشت گردی سے متاثرہ خیبر پختونخوا اور فاٹا کیہزاروں متاثرین اس پروگرام سے مستفید ہو چکے ہیں، انہوں نے کہا کہ پروگرام کا بنیادی مقصد متاثرین کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنا اوراپنے اخراجات پر قابو پانے کیلئے ان کو روزگار فراہم کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ یو ایس ایڈ کا یہ پروگرام اپریل 2015تک جاری رہے گا۔کیا دہشت گردی سے متاثرہ افراد کو روزگار پروگرام کے تحت دینے والا سامان اپ کی مرضی کے مطابق دیا جاتا ہے یا ان میں متاثرین کی مرضی بھی شامل ہوتی ہے؟ تواس سوال کے جواب میں نوید یوسفزئی نے کہا کہ روزگار بارے ہماری ٹیمیں متاثرین سے باقاعدہ پوچھتے ہیں کہ وہ اپنے لئے کونسا روزگار شروع یا ہنر سیکھنا چاہتے ہیں ، انہوں نے کہا کہ جن متاثرین کو کپڑے دیئے گئے ہیں یہ ان کے مرضی اور ڈیمانڈ کے مطابق تھے،انہوں نے کہا کہ روزگار پروگرام صرف ایک مرتبہ دیا جاتا ہے ،جو سامان متاثرین کو دیا جاتا ہے وہ ان کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت اب تک خیبر پختو نخوااور فاٹا میں جون 2014 تک 1383 متاثرہ خاندانوں کو روزگار پروگرام کے تحت اشیاء دی گئی ہے، جبکہ 2270 مرد وخواتین کو ٹریننگ دی گئی ہے انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن بند ہیں اورجو پینڈنگ کیسز پڑھے ہیں ان لوگوں کو سامان دیا جارہا ہے۔
یو ایس ایڈ نوید زندگی بحالی حیات پروگرام کے تحت دہشت گردی سے متاثرہ افراد کے بچوں کو تعلیمی سکالر شپ بھی دیا جاتا ہے اب تک خیبر پختونخوااور فاٹا میں 2685 بچوں کو سکالر شپ دیا جا چکا ہے ۔ سوات کے رہائشی خاتون عالیہ کے دو بچوں حسن جان اور احمد کو سکالرشپ دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے سکول فیس اور دیگر اخراجات پورے کرسکیں،
امن کمیٹی کے رکن جوکہ یو ایس ایڈ کے ٹیموں کیساتھ تعاون بھی کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ تحصیل کبل میں جتنے بھی لوگوں کو روزگار پروگرام ملا ہے انہوں نے اس کا صحیح استعمال کرکے اپنے زندگی کو سہل بنا دیا ہے، پروگرام سے پہلے متاثرہ افراد کی حالت بہت خراب تھی ان کو روٹی کیلئے بھیک تک مانگنا پڑتا تھا لیکن یو ایس ایڈ کے پروگرام نے ان کے زندگی یکسر بدل کر رکھ دی جو شخص دوسروں کا محتاج ہوتا تھا اج ان کیساتھ دو دو لوگ کام کرتے ہیں، وہ اپنے لئے بھی کماتے اور ساتھ دوسروں کے روزی روٹی کا سبب بھی بنے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ اب بھی دہشت گردی سے متاثرہ افراد کی تعداد سینکٹروں میں ہے اس پروگرام کو بڑھا کر ان کی زندگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔
نوید زندگی بحالی حیات پروگرام کے حوالے سے عالیہ کہتی ہے کہ اب میں اس قابل ہوں کہ اپنے گھر کے اخراجات اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنا سکوں لیکن میرے جیسے سینکٹروں اور بھی خواتین ہے جن کی زندگی دوسروں کے رحم وکرم پر ہے ،وہ ہرروز جیتی اور ہرروز مرتی ہے یہی پروگرا م اگر ان تمام خواتین تک پہنچایا جائے جنہوں نے اپنے پیاروں کو دہشت گردی میں کھو دیا ہے ، تو وہ بھی میری طرح کسی کو ہاتھ پھیلائے بغیر اپنی زندگی بہتر انداز میں گزار سکیں گے اور ساتھ دوسرے بیوہ خواتین کیلئے بھی مدد گار ثابت ہوگی ۔
617 total views, 1 views today