تحریر : ارشد علی خان
الیکشن 2018 میں جب تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کی طرف سے الیکشن لڑنے کے خواہش مند افراد سے درخواستیں طلب کی گئی تو اس وقت دیگر افراد کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے نظریاتی رہنما سعید خان نے بھی درخواست دی اور انہوں نے اس اُمید کے ساتھ انتخابی مہم شروع کر دی کہ اس بار ان کو میرٹ پر ٹکٹ جاری کر دیا جائے گا اور ٹکٹ کیلئے تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی بھر پور مہم چلاتے ہوئے پارٹی قیادت پر کافی دباؤ ڈالا اور انہوں نے اس حوالے سے نہ صرف کافی جدوجہد کی بلکہ کافی خرچہ بھی کیا اور دو مہینوں تک دن رات ایک کرکے مہم چلائی لیکن الیکشن کے دن سے چند روز قبل تحریک انصاف کی طرف سے مراد سعید ، ڈاکٹر امجد ، ڈاکٹر حیدر علی اور حاجی فضل مولا اور دیگر پر مشتمل ایک گرینڈ جرگہ ان کے حجرہ ڈھیرئ آیا جرگہ مشران نے سعید خان کی پارٹی کیلئے خدمات کو سراہا اور ان سے اپیل کی کہ وہ حلقہ پی کے 7 اور حلقہ این اے 4 میں ڈاکٹر امجد اور مراد سعید کے حق میں دستبردار ہو جائے جس پر سعید خان اس اُمید کے ساتھ دستبردار ہوئے کہ اگر ڈاکٹر امجد نے حلقہ پی کے 6 اور پی کے 7 دونوں سے کامیابی حاصل کر لی تو حلقہ پی کے 7کا ٹکٹ ان کو دیا جائے گا .
اس پر تمام لوگ بھی متفق ہوگئے اور جب ڈاکٹر امجد دونوں حلقوں پر کامیاب ہو گئے تو پھر سعید خان کو بالکل یقین تھا کہ اب ان کو حلقہ پی کے 7 کیلئے نامزد کرایا جائے گا اور وہ مقامی قیادت کی طرف سے ان کے ساتھ ٹکٹ دینے کا جو وعدہ کیاتھا وہ پورا کر دیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ سعید خان کا موقف ہے کہ جب الیکشن 2018 میں ان کو دستبردار کیا گیا تو ان کے ساتھ ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا مقامی قیادت کا موقف ہے کہ ان کے ساتھ کسی قسم کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا تاہم سعید خان کو ایک بار پھر ٹکٹ دینے میں نظر انداز کیا گیا جس کے بعد پارٹی کارکنوں میں تشویش پھیل گئی اور سعید خان نے آزاد حیثیت سے حلقہ پی کے 7 سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اور جیپ کے نشان پر انتخابی میدان میں کود پڑے اور بھر پور انتخابی مہم چلائی اور تحریک انصاف کی جانب سے ٹکٹ حاجی فضل مولا کو دیا گیا اس حلقہ اس حلقہ میں حاجی فضل مولا کیلئے مربوط انتخابی مہم چلائی گئی اور تحریک انصاف کے کارکن کافی مطمئن نظر آ رہے تھے کہ ان کو حلقہ پی کے 7 میں کامیابی نصیب ہو گی اس حلقہ میں تحریک انصاف کے اُمیدوار حاجی فضل مولاا ور متحدہ اپوزیشن کے اُمیدوار وقار خان کے درمیان مقابلہ رہا اور 14 اکتوبر کو جب لوگوں نے اپنا ووٹ استعمال کیا تو اس میں وقار خان کا تحریک انصاف کے اُمیدوار پر پلڑا بھاری رہا تاہم سعید خان کے حق میں بھی 2 ہزار ووٹ استعمال ہوئے اور تحریک انصاف کے اُمیدوار کو غیر سرکاری نتائج کے مطابق 345 ووٹوں سے شکست ہوئی جس کے بعد دوبارہ گنتی بھی ہوئی تاہم اگر سعید خان آزاد حیثیت سے الیکشن کے میدان میں نہ آتے یا سعید خان کو ٹکٹ دیدیا جاتا تو یہ سیٹ تحریک انصاف آسانی کے ساتھ جیت جاتی سعید خان جو کہ پارٹی کا وفادار اور خود کو پارٹی کیلئے وقف کرنے والوں میں سے ہے کو اس طرح دیوار کے ساتھ لگانے کا نتیجہ پارٹی کیلئے نقصان دہ ثابت ہواہے کارکنوں کو کسی فیصلے میں اعتماد میں نہیں لیا جاتا تو اس کا اثر ایسا ہی ہو گا سعید خان جو کہ پارٹی کا اثاثہ ہے کو ضائع کرنے سے پارٹی کو نقصان ہو گا پارٹی کے بہتر مفاد میں ہے کہ سعید خان جیسے مخلص کارکنوں کے تحفظات دور کرکے تحریک انصاف کو ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی جماعت بنائی جا سکتی ہے ۔
1,914 total views, 2 views today