پشاور: جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے مطالبات کی باتیں قیاس آرائیاں ہیں اور ان کی سیاسی شوریٰ نے چند ایک وضاحتیں مانگیں ہیں۔پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر پروفیسر ابراہیم کا کہنا تھا کہ اتوار کے روز ان کی طالبان کی سیاسی شوریٰ سے ملاقات ہوئی
جس میں انہوں نے حکومتی ایجنڈا پیش کیا ، اس دوران انہوں نے بھی چند ایک وضاحتیں بھی مانگیں،طالبان کی جانب سے حکومتی ایجنڈے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ ہمارے پاس امانت ہے جسے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے تک افشا نہیں کرسکتے۔ ہمیں امید ہے کہ مذاکراتی عمل مثبت نتیجے پر پہنچے گا اور ملک میں امن کی بحالی میں معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارا فرض ہے کہ ان کی سازشوں کو ناکام بنائیں اور وہ میڈیا سے اپیل کرتے ہیں کہ اس سلسلے میں وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کو کامیاب بنانے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔
پروفیسرابراہیم نے کہا کہ مذاکراتی عمل میں دونوں فریقین میں جنگ بندی کے بارے میں کوئی بات ہوئی لیکن انہیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دونوں فریق اس پر آمادہ ہیں، ہماری جانب سے حکومت اورطالبان سے یہ بات کہی گئی ہے کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ کیا جائے جس سے مزاکراتی عمل کو نقصان پہنچے جب کہ دونوں فریقین کی جانب سے اس پر اتفاق کیا جارہا ہے، وہ اگر یہ کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ دونوں فریقین کے درمیان نکات پر تبادلہ خیال نہیں ہورہا، ہماری کوشش ہے کہ دونوں جانب کی اعلیٰ قیادت آپس میں ملاقات کریں اور اگر یہ ہوگیا تو پھر نکات پر بات چیت کا سلسلہ بھی چل پڑے گا۔
جماعت اسلامی کے صوبائی امیر نے کہا کہ ملک کے موجودہ آئین پر انہیں کسی قسم کا اختلاف نہیں کیونکہ اس کی منظوری کے وقت کئی جید علما پارلیمنٹ میں موجود تھے جنہوں نے اس پر دستخط کئے، اصل مسئلہ آئین پر عملدرآمد نہ ہونے کا ہے، اگر حکومتیں اس پر اخلاص کے ساتھ عمل درآمد کرتیں تو آج یہ سوال نہ اٹھایا جاتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بہت کام کیا ہے لیکن وہ الماریوں میں پڑی ہیں، اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان سفارشات کے تحت قانون سازی کرے۔
425 total views, 1 views today