تحریر : رشید احمد
بزرگ شہریوں کودُنیا کے کسی بھی ملک و معاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ہر حکومت کو یہ ترجیح ہوتی ہے کہ وہ بزرگ شہریوں کے آرام و آسائش اور ان کو مراعات و سہولیات دینے کیلئے اقدسامات اُٹھائے اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ بزرگ شہریوں کو ہسپتالوں سمیت تمام شعبوں میں ریلیف دیا جاتا ہے اُن کیلئے الگ کاؤنٹر قائم ہیں سفر کی خصوصی سہولیات بھی ان کو حاصل ہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی جوانی ، صلاحیتیں ملک وقوم کی ترقی ، خدمت میں صرف کر دی ہوتی ہے اور بڑھاپے کے ایام میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ان کو خصوصی مقام دیا جاتا ہے اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی بات کریں تو ہم اللہ کے پسندیدہ دین اسلام کے پیروکار ہیں اور اسلام نے دُنیا کے تمام مذاہب سے زیادہ بزرگ شہریوں کی عزت و احترام اور ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے کی بار بار تاکید کی ہے جس طرح ہم نے ضعیف والدین کے ساتھ عزت و احترام کیساتھ پیش آتے ہیں اور اُن کی آرام و آسائش کا خیال رکھتے ہیں اس طرح وہ تمام بزرگ جو کہ بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں ہمارے احترام اور عزت کے بجا طور پر حقدار ہیں خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی پچھلی حکومت نے 2014 میں صوبائی اسمبلی سے سینئر سٹیزن ایکٹ پاس کیاتو اس قانون کو ملک بھر میں سراہا گیا اور خیبر پختونخوا کو پہلے صوبے کا اعزاز حاصل ہو گیا جس نے سینئر سٹیزن ایکٹ پاس کیا جس کے تحت خیبر پختونخوا کے تمام ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کیلئے الگ کاؤنٹرز کے قیام ، او پی ڈی پرچی اور داخلہ فیس سے استثنیٰ اور مفت علاج کے علاوہ ادویات میں خصوصی رعایت جیسی سہولیات دینے کے سے تمام ہسپتالوں کے ایم ٹی آئی اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو مراسلے بھجوا دئیے گئے اور انہیں مذکورہ قانون پر عمل درآمد کے احکامات جاری کر دئیے گئے لیکن چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کیلئے الگ کاؤنٹرز ، او پی ڈی پرچی ، داخلہ فیس اور الگ وارڈز قائم کرنے پر عمل درآمد نہ ہو سکا جو کہ افسوس کی بات ہے بزرگ شہریوں سے عام لوگوں کی طرح چار جز بدستور وصول کئے جا رہے ہیں جبکہ شدید نوعیت کے امراض کا شکار عمر رسیدہ افراد کیلئے الگ بیڈز بھی مختص نہیں کئے جا سکے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام نے اس حوالے سے تمام ہسپتالوں کو دو مرتبہ مراسلے ارسال کر دئیے ہیں لیکن ذمہ داروں نے قانون کو لاگ کرنے میں دلچسپی نہیں اور نہ محکمہ صحت کے حکام کی احکامات کو پرکاہ بھر اہمیت دی جس سے محکمہ صحت کے حکام کی غفلت اور چشم پوشی کابخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ چار سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود اسمبلی سے پاس ہونیوالے قانون کو ہسپتالوں میں عملاً نافذ نہ کرا سکے اور ان کی کارکردگی صرف مراسلے ارسال کرنے تک محدود ہو گئی ہے اس بارے میں صوبائی حکومت کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا حکومت نے اسمبلی سے قانون پاس کرنے پر یہی تکیہ کر لیا اور بعد میں اس پر عمل درامد کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں بزرگ شہری اس سہولت سے محروم ہیں ایک طرف حکومت شعبہ صحت میں انقلابی اصلاحات لانے اور مختلف ٹاسک فورس بنا کر عوام کو صحت سہولیات کی دہلیز پر فراہمی کے بلند و بانگ دعوے کر رہی ہے لیکن دوسری طرف وہ اپنے پاس کردہ قانون کے باوجود بزرگ شہریوں کو سہولیات دینے میں تاحال کامیاب نہیں ہوئے جس سے حکومت کے دعوؤں اور شعبہ صحت پر توجہ دینے کے بیانات کی حقیقت آشکارہ ہوتی ہے صوبائی حکومت کو بزرگ شہریوں کیلئے پاس کردہ سینئر سٹیزن ایکٹ کا بغور جائزہ لیکر اس پر عمل درآمد کے بارے میں تمام ہسپتالوں سے رپورٹ طلب کرنا چاہئے اور اس معاملے کی تحقیقات کرنی چاہئے کہ چار سال سے زائد گزرنے کے باوجود حکومتی احکامات پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا اس حوالے سے محکمہ صحت کے اعلیٰ حکام سے بھی سختی سے باز پرس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ تاحال مفاد عامہ کے اس قانون پر عمل درآمد کرانے میں دلچسپی کیوں نہیں لے رہے سینئر سٹیزن ایکٹ 2014 کو تمام ہسپتالوں میں عملاً لاگو کرنے سے ہی بزرگ شہریوں کو درپیش مشکلات میں کمی آ سکتی ہے محض قانون پاس کرنے سے خود کو اعزاز کا مستحق قرار دینے والی حکومت کو اس کے نفاذ میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے اس سے ہی حکومت کی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی مناسب ہو گا کہ ایک سال قبل حکومت نے صوبے کے تمام اضلاع کے ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے شہریوں کی فہرستیں بنا کر اُن کو سینئر سٹیزن کارڈ سوشل ویلفیئر آفس کے ذریعے مہیا کرنے کا جو اعلان کیا تھا وہ بھی اعلان کی حد تک محدود رہا اور بزرگ شہری تاحال سینئر سٹیزن ایکٹ کارڈ اور سہولیات کے بدستور منتظر ہیں ۔
2,393 total views, 2 views today