تحریر/ اویس احمد خان
یہ 2009 کی بات ہے جب شانگلہ سمیت پوری ملاکنڈ ڈویژن میں انتہاپسندی اور دہشتگردی کا دورتھا ، جینا مشکل تھا ،ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں لوگ اپنی گھروں میں محصور ہوچکے تھیں اور بعض تو کشیدہ حالات سے نمٹنے کی خاطر اپنے گھروں سے بے گھر ہوگئے تھیں ۔ ایسی حالات میں سرکاری ڈیوٹی کرنا بے حد مشکل تھاکیونکہ یہ وہ وقت تھا جہاں سرکاری ملازمین کو برسرعام سڑکوں پر زبح کئے جاتے تھے اور پھر ایسے حالات میں پولیس کی ڈیوٹی سرآنجام دینا بے حد مشکل کام تھا ۔کیونکہ پولیس طالبان کی فہرست میں سر فہرست رہتے اور انکو خصوصی طور پر خطرہ تھا لیکن جب کسی انسان میں خدمت اور جزبے کا جنون ہو تو پھر وہ پہاڑوں سے بھی ٹکراتے ہیں اور اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں ۔آجکل ہر کوئی آسانی سے پولیس پر تنقید کرتے رہتے ہیں لیکن کیا ھم نے کبھی سوچا ، کہ ان پولیس ہی کی وجہ سے ھم اپنے گھروں میں آرام سے زندگی گزار رہے ہیں ۔
یہ تو پولیس ہیں جو اپنی رشتہ داری ، بچوں کو چھوڑ کر اس سردی کے مشکل راتوں میں سڑکوں ، پہاڑوں میں ڈیوٹی کر کے ھمیں آرام سے نیند کرنے کونے دیتیہیں اور ھم اپنے گھروں میں پھر آرام سے گرمبستروں میں اپنے بچوں کے ساتھ ارام سے سوتے رہتے ہیں کیوں نہ ہم ایک ایسے سپاہی کے زندگی پر گفتگوکریں ۔ جو اس پیچیدہ اور سخت حالات میں اپنے جان پر کھیل کر اپنی فرائیض سرآنجام دے رہاتھا ۔ وہ مرد مجاہد ہے محمدزمان جو ضلع بونیر کی ایک چھوٹی سی گاوٗں مرادو میں1965 کو پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاوٗں سے حاصل کیاتعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ کئی سال فلاح و بہبود کے سرگرمیوں میں مصروف رہیں لیکن یہ وہ بہادر سپوت تھا جس میں لوگوں کی خدمت کرنے کا جزبہ تھا جنہوں نے مزید زندگی محکمہ پولیس میں بسر کرنا مناسب سمجھا اور 1984 کو محکمہ پولیس جوائن کی۔ بحیثیت سپاہی وہ پولیس میں بھرتی ہوئے ۔ اور مختلف جگہوں میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دی ۔ پھر انٹر میں نمایاں پوزیشن حاصل کرکے ساتھ سال تک وہ ،کیڈٹ لاء انسپکٹر ہنگو میں رہیں ۔ ہنگو میں اپنی فرائض بخوبی سرآنجام ہونے پر ترقی مل گئی اور وہ 2006 میں ضلع سوات کے تھانہ غالیگے میں سب انسپکٹر کی عہدے پر لوگوں کے دلوں پر راج کرنے لگا ، اور یہاں سے اسے محسن عوام کالقب مل گیا۔
2008 میں اس مجاہد کا تبادلہ ضلع شانگلہ تھانہ الپورئی میں بحثیت ایس ایچ او پروموٹ ہوا ، اور وہاں پھر بھی وہ جرایئم پیشہ عناصر کے خلاف سرگرم رہا۔یہاں سے اس کا تبادلہ تھانہ آلوچ میں ہوا ، اسی دوران طالبان نے یختنگی چوکی کوبلاسٹ کرکے علاقہ پورن کو اپنے قبضے میں لیلیا، اور اسی طرح علاقہ بنیر بھی طالبان کے قبضے میں رہا،اسی کے علاوہ ملم جبہ ، سوات ، بنیر اورجہاں پر بھی طالبان زخمی ہو جاتے تو اسکو فرسٹ ایڈ بھی الوچ کے ہسپتال میں دئیے جاتے تھے۔اور ساتھ ہی میں طالبان تھانہ الوچ جا کر اس مرد مجاہد کو دھمکی بھی دیتے تھیں ، نو مہینے تک ایس ایچ او صاحب محصور رہیں ، لیکن جملہ مالی گورنمنٹ اور مالی مقدمہ اور عوام کی حفاظت کی خاطر تھانہ کو طالبان کے حوالے نہیں کیا، یہاں تک کی اس کا ذاتی مکان کو بھی تباہ کردیا گیا ، جس کی اس وقت مالیت تین کروڑ روپے تھی ،، اور پھر کئی بار اس پر فائیرنگ کرکے اسکے کئی ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا ۔ لیکن ایس ایچ او محمد زمان نے عوام کی بلائی اور اپنی ڈیوٹی بخوبی اور ایمانداری سے سر انجام کرکے محمکہ پولیس کی سر عزت سے اونچا کر دیا ۔
اس وقت حالالت اتنی کشیدہ تھی کہ کئی پولیس جوانوں نے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے مستعفی ہونا بہتر سمجھا ۔ لیکن محمد زمان ہی تھا جس نے اپنی جان کی بازی کھیل کر ، تین ساتھیوں سمیت تھانہ آلوچ میں آپنی ڈیوٹی سرآنجام دی ۔ اور ان برے حالات کا بڑی جراٗت مندانہ طریقے سے اس کا مقابلہ کیا۔ بجائے اس کے ہم پولیس کو تنقید کا نشانہ بنائے ، ہمیں انکی کوششوں کو بھی سراہنا چاہئے تاکہ ان میں خدمت کا جزبہ جنم لیں اور وہ عوام کی خاطر آپنی فرائیض بخوبی سر آنجام دیں اور عوام کی ہر مشکل میں عوام کا ساتھ دیں۔
2,621 total views, 2 views today