تحریر: یاسر انعام
یہ خبر پچھلے تین چار روز سے میڈیا میں زیر گردش تھی کہ وزیراعظم عمران خان صاحب کابینہ میں کچھ تبدیلیاں کرنا چاہتاہے لیکن بعد میں وفاقی وزیراطلاعات فوادچوہدری نے ٹویٹ کرکے بتایا تھا کہ میڈیا میں چلنے والی خبریں بے بنیاد ہیں جبکہ آج وزیر خزانہ اسد عمر نے پہلے ٹویٹ اور بعد میں اسلام باد پریس کانفرنس کرکے اپنے استعفی کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کے وزیراعظم نے ان کو پیٹرولیم کی وازارت کی پیشکش کیں لیکن میں کابینہ میں مزید نہیں رہنا چاہتا اور ساتھ میں کابینہ میں مزید تبدیلی کا بھی کہا کہ آئندہ ایک آدھ دن میں مزید تبدیلیاں بھی ہوسکتی ہیں۔
جب عمران خان وزیراعظم نہیں بننے تھے تب بھی وہ اسد عمر کا نام لیتے تھے وزیر خزانہ کیلئے اور اگر یہ کہاں جائے کہ ایک لخاظ سے وہ ان کا غرور اور ایک بھروسہ تھا تو غلط نہیں ہوگا انہوں نے منی بجٹ بھی پیش کیا تھا لیکن اس کے بعد آج افراط زر تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اشیا ء خوردنوش سے لیکر ادوایات غرض ہر چیز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں لیکن ان سب کے باوجود حکومت کے حامی لوگ یہی امید لیئے بیٹھے تھے کے ملک کے ترقی اور مغیشت میں بہتری کیلئے یہ سب ضروری تھا۔
ان سب کے باوجود آج ان استغفی دینا بہت سے سوالات کھڑاکردیتی ہیں،کہ ایک ایسے وزیر جن کو کابینہ کا سب سے قابل وزیر مخض نو مہینے میں کیوں مستغفی ہوا جبکہ ابھی انہوں نے ہی آئی ایم ایف کے ساتھ مزاکرات آخری مراحل تک پہنچائے تھے لیکن ڈیل فائنل ہونے اور پاکستان کو پیکج ملنے سے پہلے ان کا یوں جانا عجیب سی بات ہیں۔
جب وہ وزیر بنے تو بقول ان کی پاکستانی مغیشت بہت نازک خالت میں تھالیکن ہم نے بہتر منصوبہ بندی کی اور دو ڈھائی سال میں خالات بہتر ہونگے،اگر ان کی منصوبہ بندی بہتر تھی اور سب کچھ ٹھیک ہورہا تھا تو کیا ان کو کم ازکم پہلے سالانہ بجٹ تک انتظار کرنا نہیں چاہیے تھا؟؟؟
2,054 total views, 2 views today