تحریر: غلام فاروق
دنیائی صحافت کا رخشندہ ستارہ حامد میر آپ کی عظمت اور اور آپ کی بے باک صحافت کو اربوں سلام‘ آپ جیسا صحافی صدیوں میں ایک پیدا ہوتا ہے‘ صحافت میں آپ کو یہ شرف حاصل ہے‘ کہ پورے ملک میں جہاں کہیں بھی مظلوم قومیت کے مسائل ہو‘ یا ریاست کے طرف سے جبر ہو‘ آپ نے اُن بے زبانوں میں زبان دی ہے‘ اور آپ نے کھل کر مظلوموں کی حمایت کی ہے‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخواہ‘ سندھ‘ پنجاب‘ شمالی علاقہ جات‘ آزاد کشمیر جہاں کہیں بھی صحافیوں پر ریاستی یا مافیاں یا دوسرے با اثر افراد کے طرف سے ظلم زیادتی‘ نا انصافی ہوئی ہو فوراً آپ نے اس کی آواز میں آواز ملا کر آواز اُٹھائی ہے‘ سوات میں آپریشن کے دوران جن جن صحافیوں کے ساتھ نا انصافی یا کسی جبر ظلم کا سامنا ہوا تو ملکی بڑے بڑے اداروں پر آپ نے کالم لکھی اور اُن صحافیوں کو بچایا جو اب زندہ ہے‘ اور یہ زندگی آپ کے جدوجہد کا صلہ ہے‘ کیونکہ آپ کے کردار‘ جدوجہد‘ ہم نے بہت قریب سے دیکھی ہے‘ اور آج بھی وہ وقت ہمیں یاد ہے‘ حامد میر بھائی آپ کے ایک ہی کال پر پورے ملک کے صحافی سڑکوں پر نکل آئیں گے‘ کیونکہ ملکی خداداد کے صحافیوں پر مجھ سمیت آپ کے بے پناہ احسانات ہیں‘ جو صحافیوں کے کسی بڑے تنظیم نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو آپ نے ادا کیا ہے‘ محترم حامد میر بھائی ان کدو‘ کریلا‘ کرائے کے ٹٹو دوسرے کے ہاتھوں کے بنے کٹ پتلیوں کی باتوں کی پرواہ مت کروں‘ یہ اپنے آپ خود مرجائیں گے‘ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو عزت‘ حیثیت دی ہے‘ وہ پورے پاکستان میں دو یا تین صحافیوں کو ملی ہے‘ دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والوں کو اتنی اہمیت مت دیا کرو‘ ان کے ان شوشوں میں ہم سب کو معلوم ہے کہ اس میں کوئی حقیقت نہیں‘ اگر یہ شوشے چھوڑنے والے اتنے دلیر اور بہادر ہے تو سامنے آجائیں پھر دیکھیں گے‘ مگر یہ کبھی بھی سامنے نہیں آئیں گے‘ ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ پورے ملک کے صحافی حامد میر پر جان نچھاور کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہے‘ میں اپنے آپ کو حامد میر کا ادنیٰ اور چھوٹاسپاہی اُن کیلئے جان دینے سے بھی گریز نہیں کرونگا‘ ملکی خداداد میں روزانہ ہزاروں افراد مرتے ہیں مگر اُن کو کوئی یادنہیں کرسکتا‘ ہماری عمر بھی تقریباً پچاس سال ہے‘ تقریباً ہم نے زندگی پوری کرلی ہے‘ اگر صحافیوں کے اُستاد حامد میر پر مر مٹ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں‘ حامد میر بھائی کبھی بھی اپنے آپ کو اکیلا مت سمجھیں‘ پاکستان کے پوری صحافتی برادری آپ کے ساتھ ہیں‘ اور آپ پر جان قربان کردیگی‘ آپ کے خلاف جھوٹے‘ غلط شوشے چھوڑنے والے اُن عناصر اور اُن کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو تاریخ یاد کرلینی چاہئے کہ ملکی خداداد پاکستان کے بارے میں مولانا عبدالکلام آزاد نے 1940ء میں جو ارشاداد فرمائیں تھے وہ حرف بہ حرف سچے ہورہے ہیں‘ روس کی مثال ہمارے سامنے ہیں‘ لاکھوں ایٹم بم‘ لاکھوں فوج رکھنے کے باوجود جب قوموں میں محرومیاں بڑھنے لگی تو ایک گولی بھی نہیں چلی اور روس ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا‘ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے‘ حامد میر جیسے محب وطن صحافی کیخلاف منظم طریقے سے شوشے چھوڑنا انتہائی غلط اور بے بنیاد ہیں‘ مسلمانوں نے تو سائنس و ٹیکنالوجی کو ترقی نہیں دی‘ مگر انگریزوں نے جس طرح بخار کا ترمامیٹر بنایا ہے‘ اگر اسی طرح حب الوطنی کا ترمامیٹر بنالیتا تو ایک ہمارے صحافی حامد میر کی منہ میں رکھتے اور دوسرا پاکستان کا سب سے محب وطن تنخواہ دار کے منہ میں رکھتا تو میرا پختہ یقین ہے کہ اس میں حامد میر مکمل طور پر محب وطن ہوتا‘ ہماری بدقسمتی ہے کہ کوئی بھی سچ بولنا شروع کردیں اور سیدھے راستے پر جانا چاہتے ہیں تو ملکی خداداد کے بڑے بڑے برج‘ پنڈت‘جلدی ہی غداری اور دوسرے الزامات لگانا شروع کردیتی ہے‘ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ حامد میر جیسا صحافی کہہ رہا ہے کہ مجھے اتنا تنگ کیا جارہاہے کہ میں ملک چھوڑ دوں‘ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو یہ حامد میر کا دوسرا جنم ہے‘ دشمنوں نے تو اُس پر حملہ کردیا تھا‘ مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے‘ ملک کے کروڑوں غریبوں کی دعاؤں حامد میر کے ساتھ ہے‘ اگر وہ ملک چھوڑ رہے ہیں‘ تو عام کمزور بے چارے صحافی تو اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھیں گے‘ انشاء اللہ حامد میر بھائی ہم آپ کے ساتھ ہیں‘ آپ کے کندھے سے کندھا ملا کر چلیں گے‘ نہ پہلی کبھی کسی سے ڈرے ہیں اور نہ انشاء اللہ اب ڈریں گے‘ آپ کے ساتھ شانہ بشانہ ہونگے‘ اور آپ کی ایک ہی کال کے منتظر رہیں گے۔
2,512 total views, 2 views today