یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا گلوب ویلج میں تبدیلی ہوچکی ہے۔ دنیا کے کسی بھی نکڑ پر کوئی واقعہ رونما ہوجائے، تو تھوڑی ساعت میں اس کے حالات و واقعات من وعن آپ کے سامنے ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات کسی بھی خطے میں کوئی تقریب کا انعقاد ہوتا ہے، تو وہ ہم بہ راہ راست دیکھتے ہیں۔ کسی علاقے میں سیلاب آجائے یا زلزلہ آجائے، تواس کی تباہی اور بربادی دکھائی اور بتائی جاتی ہے۔ آپ ان کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔کسی علاقے میں دھماکہ ہو جائے، تو آپ آگاہ ہوجاتے ہیں۔ آپ کومحاذجنگ سے گولیوں کی تھرتھراہٹ اور اس کے حالات بتائے اور دکھائے جاتے ہیں۔ یہ سب حالات آپ کو صحافی بتاتے اور دکھاتے ہیں۔ صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ آپ کو انفارم کرتا ہے۔ صحافیوں کے لیے جگہ جگہ موت منھ کھولے کھڑی ہوتی ہے اور چاروں اطراف سے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں، لیکن یہ پھر بھی حوصلہ اور ہمت نہیں ہارتے ہیں۔ آپ کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ سندھ، بلوچستان اور دیگر دورافتادہ علاقہ جات میں صحافت سہل نہیں ہے۔ صحافیوں سے کم وبیش اپنے بھی ناراض اور پرائے بھی خفا ہوتے ہیں۔ آپ جس کے حق میں تحریر کریں، تو وہ سونگھتا نہیں۔ اگر کسی کے خلاف لکھیں، تو وہ کم ازکم ناراضگی کا اظہار ضرور کرتا ہے۔ ضلع میانوالی جیسے دیہاتی اور قبائلی علاقوں میں تو صحافت ایسی ہے جیسے آ بیل مجھے مار۔
صحافیوں کے لیے جہاں خارجی خطرات منڈلاتے ہیں، تو وہاں اندورونی خطرات بھی ہوتے ہیں۔ خاکسار جیسے صحافی جو صحافت کے الف ب سے بھی ناواقف ہوتے ہیں، لیکن اپنے آپ کو ’’پدرام سلطان بود‘‘ سمجھتے ہیں اور میرے بعض صحافی بھائی اپنے آپ کو کوئی خلائی مخلوق سمجھتے ہیں۔ بعض صحافی تو قطعی ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ صحافی پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی چال چلن اور انداز بیاں میں شستگی ہونی چاہیے اور آپس میں اتفاق ہونا چاہیے۔
ڈسٹرکٹ پریس کلب ضلع بھر کے صحافیوں کا ایک پلیٹ فارم ہے اور یہ ان کی اتحاد و یگانگت کی علامت ہے۔ ڈسٹرکٹ پریس کلب صحافیوں کے ملاپ کی جگہ بھی ہے۔ یہی پر ضلع بھر کے صحافی ایک دوسرے کی زیارت کرلیتے ہیں اور ایک دوسرے کی دیدار بھی کر لیتے ہیں۔ اگر کسی صحافی کا کوئی معاملہ ہو، تو اس کے حل کے لیے جتن کیا جاتا ہے۔ صحافی کالونی کے لیے بھی مشترکہ تگ ودو جاری ہے۔ امید ہے کہ نتیجے کے طور پر جلدہی کام رانی مل جائے گی۔
سال 2014ء کے لیے ڈسڑکٹ پریس کلب ضلع میانوالی کے چےئرمین حاجی منظور احمد خان میانوالی، سنےئر وائس چےئرمین حاجی ملک مشتاق حسین کالا باغ، وائس چےئرمین تحصیل عیسیٰ خیل غلام حسن خان نیازی کمرمشانی، وائس چےئرمین تحصیل پپلاں غلام یاسین، وائس چےئرمین تحصیل میانوالی احسن ناصر بچھر،سیکرٹری جنرل اظہر خان نیازی میانوالی، جوائنٹ سیکرٹری ضیاء اللہ خان نیازی داود خیل، فنانس سیکرٹری غلام عباس موچھ، انفارمیشن سیکرٹری ندیم اختر کندیاں، رابطہ سیکرٹری احمد نواز خان پائی خیل اور لائبریرین سید محمد شاہ پکی شاہ مردان (ماڑی انڈس) نے قلم دان سنبھالا۔ قوی امید ہے کہ یہ احباب اپنے اپنے عہدوں کے ساتھ انصاف کریں گے اور صحافیوں کے مسائل حل کریں گے۔
اپنے سینئر اور جونےئر ساتھیوں سے التماس ہے کہ اگر آپ کے درمیان کوئی رنجش ہے، تو اس کدورت کو دور کریں۔ اپنے مفادات کو شریک کریں تاکہ آپ میں قربت اور محبت پیدا ہو۔ اگر آپ میں انس ومحبت پیدا ہوگی، تو آپ اپنے کٹھن امور کو بھی آسانی سے حل کر پاؤگے۔ اگر نفاق میں رہیں گے، تو اس سے زیادہ نقصان ہوگا۔ ویسے بھی دنیا بھر میں صحافیوں کے لیے حالات ساز گار نہیں ہیں۔ گزشتہ سال 2013ء میں دنیا بھر میں71 صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ملک شام میں28، عراق 10، مصر 6، پاکستان5، صومالیہ 4، انڈیا 3، برازیل 3، فلپائن میں3، روس 2، مالی 2، ترکی2، بنگلہ دیش 1، کولمبیا1 اور لیبیا میں 1 صحافی قتل ہوا۔ اگر صحافی آپس میں گتھم گتھا ہوں، تو وہ اپنی حفاظت کیسے کریں گے؟
حضرت علیؓ کاقول ہے کہ ’’زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو، کیوں کہ جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے۔ اکڑنا مردے کی پہچان ہوتی ہے۔‘‘ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ صحافی آپس میں شیر و شکر ہوجائیں۔ تاکہ لوگوں تک انفارمیشن اور حا لات حاضرہ بہترین انداز میں پیش ہوتے رہیں۔
1,102 total views, 2 views today