مہمان کالم
پیدائش : 24 رمضان 1350 ھ بمطابق 2 فروری 1932 بروز منگل بمقام اینگرو ڈیرئ
وفات : 6جمادی الثانی 1413ھ بمطابق یکم دسمبر 1992 بروز منگل صبح 7 بجے بمقام ICU وارڈ سیدو شریف ہسپتال سوات
تعلیم :گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 بنڑ منگورہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا
جبکہ دینی تعلیم کے لئے مردان کے ایک مدرسہ میں اپنے بڑے بھائی مولانا غلام حقانی کے ساتھ چند سال گزارے
میٹرک کرنے کے بعد 1956 میں ریاست سوات کے تحت ٹیچر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت اختیار کی. ملازمت کے دوران1961 میں ہری پور ایلمنٹری کالج ہزارہ سےجے وی کی سند حاصل کی. چنانچہ 60 کی دہائی میں مدین (سوات کوہستان کے ایک گاؤں ) میں کچھ سال گزارنے کے بعد کوکارئ سکول تبادلہ ہوا یہاں تعیناتی کے دوران اس وقت کے والی سوات نے (منگورہ کے ایک شخص کی شکایت اس پر “کہ وہ لوگوں میں مولانا مودودی رح کی کتب اور نظرئے کا پرچار کرتے ہیں”) بطور سزا انکا تبادلہ حاجی بابا سکول منگورہ کردیا. اسکے علاوہ رونیال نامی دور دراز علاقے کے سکول میں بھی ملامت کی ہے. مدین اور رونیال میں ملازمت کے دوران وہاں قیام پذیر رہتے تھے اور سکول کے اندر اور ڈیوٹی کے بعد علاقے کے لوگوں میں اسلام بطور نظام زندگی کی پرچار کیلئے کتابیں بالخصوص مولانا مودودی رح کی کتب تقسیم کیا کرتے تھے. جوکہ والئ سوات کی حکومت میں بغاوت سمجھی جاتی تھی….. سن84 ،85اور 1986 بطور ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ سکول گلکدہ میں تعینات رہے وہاں سکول کی عمارت کی توسیع اور اور تزئین کے علاوہ غریب طلبہ کی اپنی جیب سے باقاعدہ مدد کرتے رہے. چونکہ سن1983 میں عرفان تعلیمی مرکز کے نام سے منگورہ سوات کے طلبہ کیلئے اپنی نوعیت کا ایک معیاری اور کامیاب تعلیمی ادارہ قائم کیا تھا جوکہ اس زمانے میں نجی شعبے میں کافی پزیرائی حاصل کرکے دور دور سے طلبہ کھنچ لایا تھا. اور جدید علوم کے ساتھ ساتھ بنیادی دینی تعلیمات کے حصول کیلئے ایک کامیاب تجربہ ثابت ہونے کے علاوہ اس سے فیسوں کے مد آمدنی بھی کافی تھی لہذا اپنے سرکاری سکول کے غریب بچوں کے علاوہ محلے کے ناداروں اور رشتہ داروں کی مالی معاونت کا ذوق بھی بڑھ)چڑھ کر پورا کرتے رہے.
لیکن 84 تا 86 یہ تین سال انکے لئے مالی خوشحالی کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے غموں کے سال بھی ثابت ہوئے. 84 میں بڑے بھائی کے بیٹے حمیدالحق کی ناگہانی موت کے غم نے آپ کے واحد بھائی مولانا غلام حقانی کو اندر اندر سے کھا لیا اور خون کے سرطان جیسے مرض سے دار فانی سے کوچ کر گئے پھر ٹھیک 100 دن بعد جرآت اور بہادری کا استعارہ والدہ بھی داغ فراقت دیکر آپکو اکیلا چھوڑ گئے اور یوں سرکاری نوکری اور دنیا کے معاملات پھیکے نظر آنے لگے اور وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لیکر گوشہ نشین ہو گئے ڈبہ مسجد کی امامت اور خطابت والد اور دادا پر دادا سے میراثاً ملی اور 1960 سے مرتے دم تک مصلیٰ نبی اور ممبر رسول ص پر وراثت انبیاء کا فریضہ بغیر کسی معاوضہ بأحسن طریقہ انجام دیتے رہے اور سیاست معیشت معاشرت کو دین کا لازمی حصہ سمجھتے اور سمجھاتے رہے. مسجد کے اندر 1975 سے موت تک نماز عشاء کے بعد روزانہ قرآن مجید کا درس دیتے رہے اور سینکڑوں افراد کو پیغام ربانی مروجہ طریقہ سے ہٹ کر عام فہم زبان میں پہنچاتے رہے. تقریر کی ایسی طاقت اور اظہار حق کی ایسی جرأت کہ جمعہ کے دن دور دور سے لوگ کچاکچ تقریر سننے آتے . شخصیت میں نفاست طبیعت میں تھوڑی غالب سختی اور رعب کا یہ عالم کہ دل چاہتے ہوئے بھی اکٹر لوگ دور سے دیدار پر اکتفا کرتے حالانکہ جو ایک دفعہ قریب آتا تو اس تأثر کو زائل ہی پاتا. مسجد کا مستقلاً انتظام، صفائی اور وقتاً فوقتاً توسیع کی لوگ اب تک مثالیں دیتے ہیں. ہر حق پرست کی طرح مخالفت بھی موجود رہی لیکن انکو کھبی نرمی کبھی دلیل کبھی تحائف کے ذریعے تالیف قلب کی کوشش اور کبھی اپنے مزاج کے عین مطابق بزور بازو راہ راست پر لانے کی کوشش کی.
مظلوم اور غریب کی ہمیشہ دادرسی کی اور بارشوں کے دنوں میں مسجد میں اعلان کرکے لوگوں سے بھی اور اپنی جیب سے بھی غریبوں کے لئے لکڑیوں کا باقاعدہ بندوبست کر دیا کرتے تھے. اسی طرح بہنوں اور رشتہ داروں کی بھی پھر پور ہر موقع پر خبرگیری اور تحفہ تحائف وغیرہ کا اہتمام کرتے تھے. بہت کم سفر پر جاتے تھے. پشاورجب بھی جاتے قراقُری ٹوپی اپنے لئے ضرور بناتے (جوکہ ان دنوں تعلیم یافتہ اور اچھے گھرانے کے لوگوں کی پہچان ہوتی تھی) سال میں کم از کم ایک کوٹ اور ایک واسکٹ ضرور بنواتے اور بقول حسین احمد کانجو صاحب انتہائی نفیس، خوش لباس، خوش مزاج اور قدرے خوش خوراک تھے. مسجد کے کمرے میں اکثر دوستوں کی محفل سجھی رہتی تھی. زیادہ تر وقت مسجد کے اپنے کمرے میں (جو کہ بطور دارالمطالعہ اور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا) گزارتے تھے. دن کو اسی کمرے آرام بھی کرتے مستری نظیر احمد اور اسفندیار خان انکے دوست بھی انکے ساتھ دن کو وہی پر آرام کیلئے آتے تھے. نئی گاڑی رکھنا انکا ذوق تھا انکے دوست حاجی عبدالسلام انکے ساتھ یا بڑا بیٹا فضل معبود اکثر انکے ساتھ گاڑی چلاتے تھے. رات نماز عشاء اور درس قرآن کے بعد مسجد میں حاجی بختیار زرپھول اور علی حیدر شال انکے ساتھ گپ شپ کے لئے بیٹھے ہوتے تھے.
جماعت اسلامی کے رکن تھے. رکن ساز کارکن بھی رہے جمعیت اتحاد العلماء ضلع سوات کے صدر بھی رہے اور سب سے بڑھکر ہمہ وقت داعی الی اللہ تھے.
1987 میں والدہ کی وفات کے بعد حج کا فریضہ ادا کیا. اسی سال شوگر کے مریض ہوئے اور 5 سال بعد یرقال کی مرض کی وجہ سے اس دار فانی سے 63 سال کی عمر میں کوچ کر گئے. یکم دسمبر 1992 بروز منگل 2 بجے ہزاروں اشکبار آنکھوں نے انکو اپنے بھائی مولانا غلام حقانی اور والدہ کے پہلو قبر میں اس انداز سے اترتا دیکھا کہ گویا فرشتے اپنے پروں سے دین کے اس خادم کو لپیٹ کر یہ نغمہ سرا ہیں کہ “یاایتھاالنفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیہ…….”
اس دن منگورہ کے صرافہ بازار اور مین بازار وغیرہ سوگ میں بند رہے.
انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے دو بیٹے مولانا فضل معبود اور مولانا عرفان اللہ مسجد کے خطیب اور امام کے طور پر مقرر اور تیار کئے تھے جوکہ صدقۂ جاریہ کے طور پر اپنے اسلاف کے طریقے پر گامزن اور رواں دواں ہیں گویا کہ وہ ہم میں خود تو موجود نہیں لیکن انکے5 بیٹے اور ہزاروں شاگرد اور معتقدین خدمت دین خدمت انسانیت اور خدمت تعلیم کا سفر اندرون و بیرون ملک جاری رکھے ہوئے ہیں. اللھم اغفر لہ وارحم علیہ. آمین
1,130 total views, 2 views today