قاضی فضل اللہ شمالی امریکہ
افراد کے درمیان بھی مسابقت ہوتی ہے ،ایک مقابلہ جاری رہتا ہے اور مقابلہ کی یہی جبلت انسانی اقدار واخلاق کا ستیا ناس کردیتی ہے ۔
یہی چیز یعنی مسابقت ریاستوں میں بھی ہے اور یہ مسابقت اصلاً معاشی میدان میں ہے کہ سیاست اور سائنسی ترقی ،ٹیکنالوجی ،اسلحہ اور دفاع سب کچھ معیشت پر موقوف ہے۔
اس معاشی جنگ میں دو آلات مستعمل ہیں۔
۱۔ایک مالیاتی وسائل
۲۔اور دوسرا ذرائع ابلاغ
ذرائع ابلاغ پروپیگنڈا اور تشہیر کرکرکے ذہن بناتے ہیں تاکہ کسی انسان کو شیطان بنائے یا شیطان کو فرشتہ قراردے۔تبھی تو سیاسی دنیا میں مصروف لیڈران ذرائع ابلاغ کو خوش رکھتے ہیں ۔ان ذرائع ابلاغ کے غلط استعمال پر سرزنش بھی نہیں کی جاسکتی کہ پھر یہ بات آتی ہے کہ آزادی اظہار خیال کو سلب کیا جارہا ہے۔اور ذرائع ابلاغ بھی ایک انڈسٹری ہے تو پھر سارے انڈسٹری والے لگ جاتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی کہہ دے کہ نہیں اس کام میں ہم ساتھ نہیں دیتے تو اس کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا جاتا ہے۔دل آزاری معاف لیکن آج کے انسان کا مزاج یہ بنا ہے کہ جو ایجنڈا ہے صحیح ہو یا غلط اسے آگے لے کے چلنا ہے ،اپنے ساتھ ہمنوا پیدا کرنے ہیں اور اگر کوئی رکوائے حتی کہ حکومت بھی ہو تو ہمنواؤں کو بطور گینگ استعمال کیا جائے اور یہ کام کم وبیش سارے طبقات کررہے ہیں ۔
جبکہ دوسری چیز مالیاتی وسائل ہیں ۔سرمایہ دار اور صنعت کار جو سرمایہ دار ہی ہیں وہ اپنا سرمایہ سیاست دانوں پر خرچ کرکے انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں اور پھر انہی سے اپنی مرضی کی قانون سازیاں کرواکے اپنے دئے ہوئے مال کے أساس پر کئی گنا کمالیتے ہیں اور یہ کمائی ساری کی ساری غریب اور متوسط طبقے کی خون پسینے کی کمائی سے ہوتی ہے کہ ان کے مصنوعات وغیرہ تو یہی لوگ ہی استعمال کرتے ہیں۔یہ سرمایہ دار اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ جب چاہیں ریاست اور حکومت کو مفلوج کردیتے ہیں ،سسٹم کو ٹھپ کرکے اسے اپنے ڈھب پر لے آتے ہیں۔یہی سرمایہ دار ذرائع ابلاغ کی وجہ سے معاشروں کو گمراہ کردیتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کا انداز ایسا کہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔بالفاظ دیگر معاشرہ اور ریاست وحکومت ان دو طبقات کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں ۔سیاست کو یہی طبقات ریگولیٹ کرتے ہیں کہ کس کو پروموٹ کرنا ہے اور کس کو زمین پر پٹخنا ہے۔یہ تو درکنار آج کی دنیا میں جنگ اور امن کو ریگولیٹ کرنے میں بھی ان دویعنی سرمایہ داروں اور ذرائع ابلاغ کا بڑا ہاتھ ہے ۔
منڈی کی معیشت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت نے سب کچھ سرمایہ داروں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔ان کے خلاف بات سنی بھی نہیں جاتی کہ یہ لوگ وقتاً فوقتاً ویلفئیر اور چندوں میں خطیر رقم دے دیتے ہیں اگر چہ وہ خطیر رقم ان کے لوٹ کھسوٹ کا ایک لاکھواں حصہ بھی نہیں ہوتا لیکن اس طرح وہ اپنے ظلم کے خلاف بولنے والوں کی بات کو بے اثر کر جاتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظر میں تو ان کا یہی ویلفئیر کام ہوتا ہے تو وہ بولنے والے سے کہتے ہیں کہ بندو کرو یہ بکواس ۔اس نے یہ خیر کاکام کیا ہے تم نے کیا کیا ہے؟ا ن کے ذہن میں یہ بات ڈالنا کہ دیکھو بھائی ان لوگوں کا کمانے کا جو انداز ہے وہ ملک وقوم اور معاشرہ وریاست کو کھوکھلا کرنے والا ہے ۔وہ کہتے ہیں کیا کھوکھلا کرنے والا ہے وہ تو یہ کررہا ہے ،یہ خیر کررہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
بہر تقدیر دنیا رہے گی تو یہ سارے کام جاری رہیں گے ۔دھوکے بھی ہونگے ،فراڈ بھی ہوگا ،چور بازاری بھی ہوگی ۔کچھ اس کے خلاف بولنے والے بھی ہونگے ۔یہی تو وہ سٹیٹ ہے جس میں اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کی اصلاح فرمائے آمین۔
862 total views, 2 views today